اردو میں آٹھ تفاسیر انگلش میں دو تفاسیر اور گیارہ احادیث کی کتابوں کا بہترین سافٹ وئیر

آج میں آپ کے لیے ایک ایسا سافٹ وئیر شئیر کرنے جار ہا ہوں کہ جس میں آپ کو اردو زبان میں قرآن مجید کی کئی تفاسیر کے ساتھ  ساتھ صحاح ستہ کی احادیث بھی اردو زبان میں میسر ہوں گی ۔ اس سافٹ وئیر کی تصاویر کو دیکھ کر آپ محسوس کرسکتے ہیں کہ یہ  آپ کے لیے کس قدر مفید ثابت ہوسکتا ہے۔ یہ سافٹ وئیر مرکز الدعوۃ الارشاد سعودی عرب نے تیا رکروایا ہے۔ اس سافٹ وئیر کی تفصیلات درج ذیل ہیں ۔
 اسمیں قرآن مجید کے 12 اردو تراجم  8 اردو تفاسیر’ 10 انگلش تراجم و 2 انگلش تفاسیر’ ایک سندھی ترجمہ’ ایک ہندی ترجمہ’ ایک اردو صوتی ترجمہ و قرآن شریف کی تلاوت سمیت 11 احادیث کی کتب (مع مکمل صحاح ستہ) و کتب تسعہ ہیں جنکی تفصیل درج ذیل ہے،
*  ترجمہ و تفسیر مکی (یہ وہی قرآن مجید ہے جو حرمین شریفین مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں سعودی عرب کے فرمان روا شاہ فہد نے اسلام کی بہتر سمجھ کے لیے شائع کروا کے رکھے ہوۓ ہیں) ۔ اس کا ترجمہ و تفسیر مولانا محمد جونا گڑہی کا ہے۔ مزید تفصیل کے لیے تعارف ملاحظہ فرمائیں۔
*   ترجمہ و تفسیر مدنی۔ اسکا ترجمہ و تفسیر مولانا محمد اسحاق مدنی صاحب کے قلم سے ہے۔
*  ترجمہ و تفسیر عثمانی۔ اسکا ترجمہ مولانا محمود الحسن دیوبندی اور تفسیر مولانا شبیر احمد عثمانی صاحب کی کاوش ہے ۔
*    ترجمہ و تفسیر ابن کثیر ۔
*   ترجمہ کنزالایمان و تفسیر خزاین العرفان ۔
*  ترجمہ و تفسیر الکتاب از ڈاکٹر محمد عثمان ۔
٭   ترجمہ و تفسیر تفہیم القرآن از سید ابو الاعلیٰ مودودی ۔
٭   ترجمہ و تفسیر تیسیر القرآن ۔مولانا عبدالرحمن کیلانی رحمہ اللہ
*   ترجمہ احمد علی ۔
٭  ترجمہ عرفان القرآن  ۔ ڈاکٹر محمد طاہرالقادری
٭  ترجمہ بھٹوی  ۔
٭  ترجمہ جوادی  ۔
*   انگلش ترجمہ دریا آبادی۔
*   انگلش ترجمہ مولانا تقی عثمانی ۔
*   انگلش ترجمہ محسن و ہلالی ۔
*  انگلش ترجمہ پکتھل۔
*    انگلش ترجمہ شاکر۔
*    انگلش ترجمہ یوسف۔
*    انگلش ترجمہ عرفان القرآن۔
٭  انگلش ترجمہ و تفسیر  سید ابو الاعلیٰ مودودی ۔
٭ انگلش تفسیر  جلالین  ۔
*   ہندی ترجمہ ۔
*   صوتی ترجمہ۔ جناب مولانا فتح محمد جالندہری کا ترجمہ آواز کے ساتھ ہے۔
*   تلاوت کلام پاک امام کعبہ الشیخ عبدالرحمان السدیس اور الشیخ الشریم کی آواز میں ہے ۔
احادیث کی کتابوں (مکمل صحاح ستہ) میں،
*  بخاری شریف۔ جو ایک اندازے کے مطابق قرآن مجید کے بعد اسلام میں سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب ہے۔
*  مسلم شریف۔ جو صحیح احادیث میں صف اول میں شمار ہوتی ہے۔
*  سنن ابو داؤد شریف ۔ جو صحاح ستہ کی اہم کتب میں سے ہے ۔
*   سنن ابو نسائی شریف ۔ صحاح ستہ کی اہم کتاب ہے۔
*    جامع ترمذی شریف ۔ صحاح ستہ کی اہم کتاب ہے۔
*   سنن ابن ماجہ شریف ۔ صحاح ستہ کی اہم کتاب ہے۔
*   شمایل ترمذی ۔
*    موطا امام مالک۔
*   مشکوہ شریف ۔
٭  سنن دارمی ۔
٭ مسند احمد  ۔
یہ تمام کتب احادیث مع عربی متن ( مع اعراب و بغیر اعراب) کے ہیں۔ صحاح ستہ کی اکثر کتابوں کا انگلش ترجمہ بھی شامل ہے۔  اور قرآن مجید کے اردو تراجم و تفاسیر مع قرآن مجید کی عبارت مکمل ڈیٹابیس کی شکل میں ہیں اور آپ کسی بھی ترجمہ یا کسی بھی تفسیر یا تمام تراجم و تفاسیر میں کوئی خاص لفظ یا الفاظ تلاش کرنا چاہیں تو یہ پروگرام بہت سرعت کے ساتھ آپکی مطلوبہ معلومات کو ڈھونڈ کر بمعہ تمام ریفرنسز کے آپ کو دکھا دے گا۔ اسی طرح آپ احادیث کی ایک کتاب یا تمام کتابوں میں سے مطلوبہ معلومات ڈھونڈ سکتے ہیں۔
کسی بھی حدیث کو باب ،  موضوع کتب ، و موضوعات ، الفاظ یا راوی کے لحاظ سے تلاش کیا جاسکتا ہے ۔ مثلا تمام احادیث جن میں جنت کا ذکر ہو وہ لفظ جنت کو تلاش بلحاظ الفاظ میں ،  لکھ کر تلاش کی جاسکتی ہیں۔ تلاش کردہ الفاظ ایک سے زیادہ بھی ہو سکتے ہیں جیسے ‘جنت’  اور  ‘واجب’ انکو دونوں طرح دیکھا جاسکتا ہے
١۔ یعنی وہ احادیث جن میں جنت اور واجب کا دونوں کا ذکر ہو ۔
٢۔ وہ احادیث جس میں جنت یا واجب کا ذکر ہو۔
٣۔ وہ احادیث جن میں جنت واجب ساتھ ساتھ لکھے ہوئے ہوں۔ سرچ کی یہ سہولت تراجم و تفاسیر میں بھی ہے۔

ڈاؤن لوڈ لنک اور انسٹالیشن ہدایات

محترم قارئین کرام اس سافٹ وئیر کا سائز 500 میگابائٹ سے زیادہ ہے۔ اگر کوئی اس کو ایک مرتبہ ہی ڈاون لوڈ کرنا چاہتاہے تو اس کے لیے لنک درج زیل ہے۔
For  Windows XP/Vista/Win7 32 bit
For  Windows XP/Vista/Win7 64 bit
اور جن کے انٹرنیٹ کی سپیڈ سست ہے وہ اس کو درج ذیل لنک سے چار حصوں میں ڈاون لوڈ کرسکتے ہیں۔اور یہ صرف 32 بٹ کے کمپیوٹرز کے لیے ہے۔
یہاں سے آپ کو  اس سافٹ کے چار حصے ڈاون لوڈ کرنا ہونگے  ۔ اس کے ساتھ ایک سافٹ ویئر   hjsplit نامی ہے اس کو بھی ڈاون لوڈ کریں  ۔جب آپ ڈاون لوڈ کر لیں گے تو آپ کے پاس درج ذیل تصویر کے مطابق پانچ فائلز موجود ہوں گی۔ اس میں سے آپ hjsplit نامی فائل کو ڈبل کریں اور اس کو چلائیں۔
پھر جس فولڈر میں فائلز پڑی ہیں اس فولڈر کو کھول کر ان چار فائلز میں سے  001 فائل کو منتخب کرنے کے بعد اوپن بٹن کو کلک کردیں۔
اب جیسے ہی START بٹن کو کلک کریں گے تو یہ فائلزکو جوڑنا شروع کردے گا۔
فائلز کے جائنٹ ہونے کے بعد ایک فائل آپ کے پاس آ جائے گی ۔جیسا کہ دائرے سے واضح ہے۔ یہ پروگرام کی فائل ہے۔ اب پروگرام کو انسٹال کرنے کے لیے اس کو ڈبل کریں ۔
ڈبل کلک کرنے کے بعد آپ کو درج ذیل فائلز نظر آئیں گئیں ۔ ان میں سے SETUP.EXE فائل کو ڈبل کریں ۔ تو پروگرام انسٹال ہونا شروع ہو جائےگا۔
NEXT کو کلک کرتے جائیں ۔ آخرمیں یہ پروگرام مکمل طور پر انسٹال ہوجائے گا۔ ان شاء اللہ
 پروگرام انسٹال ہونے پر آپ کو ایسا نظر آئےگا۔
اگر کوئی مسئلہ ہو تو پیش کیجیئے گا ۔ ان شاء اللہ آپ کی مدد کی جائے گا۔ خود بھی پڑھیے اور دوسروں کے ساتھ بھی شئیر کیجئے ۔یاد رکھیے یہ آپ کے لیے ایک اچھا صدقہ جاریہ بن سکتا ہے۔
دعاوں میں یاد رکھیے۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

جاوید چودھری کا بہترین کالم…جمعدار بنیں یا غلام بنیں

امریکہ کا غصہ بجا ہے کہ جب ہم ہر کام میں چاہتے ہیں اور اس سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ ہماری مدد کرئے تو اگر ہم اس کی حکم عدولی کریں گئے توکیا اس کو غصہ نہیں آئے گا۔ قصور امریکہ کا نہیں ہمارا ہے۔ہمیں جمعدار بننا ہوگا یا غلام۔۔۔ ہمیں آج فیصلہ کرنا ہوگا۔


چیونٹیوں کے رہنے سہنے کا طریقہ اور اطلاعات کا نظام قرآن اور جدید سائنس کی روشنی میں

 قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتاہے:
(وَحُشِرَ لِسُلَیْمٰنَ جُنُوْدُہ مِنَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ وَالطَّیْرِفَہُمْ یُوْزَعُوْنَ ۔ حَتّٰی اِذَااَتَوْاعَلٰی وَادِالنَّمْلِ لا قَالَتْ نَمْلَة یّٰاَیُّھَا النَّمْلُ ادْخُلُوْا مَسٰکِنَکُمْ ج لَا یَحْطِمَنَّکُمْ سُلَیْمٰنُ وَجُنُوْدُہ لا وَہُمْ لَا یَشْعُرُوْنَ)
” اورسلیمان کے لیے (کسی مہم کے سلسلہ میں )اس کے جنوں،انسانوں اور پرندوں کے لشکر جمع کیے گئے اوران کی جماعت بندی کر دی گئی تھی۔ یہاں تک جب وہ چیونٹیوں کی ایک وادی پر پہنچے تو ایک چیونٹی بول اٹھی ،”چیونٹیو!اپنے اپنے بلوں میں گھس جاؤ۔ایسانہ ہو کہ سلیمان اورا س کے لشکر تمہیں روند ڈالیں اورانہیں پتہ بھی نہ چلے”(1)
زمانہ قدیم میں بعض لوگ قرآن مجید میں بیان کردہ اس طر ح کی باتوں کا ٹھٹھہ اڑاتے تھے کہ اس میں عجیب طرح کے قصے کہانیاں ہیں کہ جن کے متعلق انسان تصور بھی نہیں کر سکتا کہ یہ سچی ہوں گی مثال کے طور پر اسی آیت کو ہی لے لیں کہ جس میں بتایا گیا ہے کہ چیونٹیاں نہ صرف باتیں کرتی ہیں بلکہ ایک دوسرے کو اطلاعات بھی بہم پہنچاتی ہیں۔تاہم جدید تحقیق کے نتیجے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ حشرات اور جانوروں میں سے چیونٹیوں کا رہن سہن انسان کے طرز زندگی کے ساتھ سب سے زیادہ مشابہت رکھتا ہے۔(2) جدید تحقیق کے نتیجے میں درج ذیل باتیں چیونٹیوں کے متعلق سامنے آئی ہیں۔
حشرات میں سب سے زیادہ معاشرت پسند چیونٹی ہے۔یہ انتہائی منظم معاشروں میں زندگی گزارتی ہے جنہیں بستیاں کہتے ہیں۔ان کا نظم وضبط اس درجہ کا ہے کہ تہذیب ِانسانی کے متماثل تہذیب کی دعویدارہو سکتی ہیں۔بچوں کی دیکھ بھال اور بستی کی حفاظت کرتی ہیں۔خوراک پیدا کرتی اور سنبھالتی ہیں اور پھر باقی سب کاموں کے ساتھ ساتھ جنگ سے بھی دو چار ہوتی اورکرتی ہیں۔  ایسی بستیاں بھی ہیں جہاں خیاطی،کاشتکاری اورمویشی پروری جیسے کام ہوتے ہیں۔ان کے مابین باہمی ابلاغ کانہایت موثر نظام موجود ہے۔معاشرتی تنظیم ،تخصیص ِکار اورتقسیم کار کے حوالے سے کوئی دوسرا جاندار ان کامقابلہ نہیں کرسکتا۔
چیونٹیوں کی معاشرتی زندگی
       جیسے کہ پہلے بتایا گیا ہے کہ چیونٹیاں بستیوں میں رہتی ہیں اوران کے درمیان مکمل تقسیم کار موجود ہے، ان کے معاشرتی ڈھانچے کا قریبی جائزہ اورمطالعہ دلچسپی سے خالی نہیں۔یہ امر خصوصی توجہ کا حامل ثابت ہو گا کہ ان میں قربانی دینے کی صلاحیت ہم انسانوں سے کہیں زیادہ ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ ان میں امیر غریب کی جنگ یا درجہ ومرتبہ کے حصول جیسی کوئی چیز نہیں جو انسانی معاشروں کا خاصا ہے۔ بہت سے سائنس دانوں نے ان کے سماجی روّیے پر برسوں تحقیق کی ہے لیکن ان کا ترقی یافتہ معاشرتی رویہ ان پر کھل نہیں سکا۔ واشنگٹن کے کارنیگی انسٹیٹیوٹ کے صدر ڈاکٹر کیریل پی ہیکسن نے برملا اعتراف کیا ہے کہ :
    ”ساٹھ برس سے جاری تحقیق وتدقیق کے بعد بھی میں چیونٹیوں کے مفصل سماجی رویے کو بچشم حیرت دیکھ رہا ہوں۔  انہوں نے بو اور اعضا کی زبان کا ایک پیچیدہ نظام وضع کر رکھا ہے جو انہیں مکمل ابلاغ فراہم کرتاہے۔ چیونٹیاں حیوانی رویے کی ذیل میں ہمیں ایک اچھا رہنما خاکہ فراہم کرتی ہیں۔”
         ان کی کچھ بستیاں رقبے اورآبادی میں اتنی بڑی ہوتی ہیں کہ ان کی وضاحت کے لیے انہیں ایک بڑی ریاست مان کر کام کاآغاز کرناپڑتاہے۔ اس لیے ڈاکٹر پی ہیکسن کے نتائج سے اتفاق کرنا پڑتاہے۔ بڑی بسیتوں کی ایک مثال افریقہ کے ایشی کاری ساحل پر ”فارمیکا”چیونٹی کی آبادیاں ہیں۔ ان میں سے ایک بستی کوئی 2.7مربع کلومیٹر پر محیط ہے جس میں کوئی 45,000گھروندے ہیں جو باہم منسلک ہیں۔
       اس بستی میں 10لاکھ 80ہزار” ملکائیں ”اور 30کروڑ60لاکھ کارکن چیونٹیاں ہیں۔ ایسی بسیتوں کو سپرکالونی (Super Colony) کانام دیاجاتا ہے۔ بستی کے اندر خوراک اور پیداواری آلات کے لین دین کا ایک منظم طریقہ رائج ہے۔ چیونٹیوں کی اتنے بڑے علاقے میں نظم وضبط برقرار رکھنے میں کامیابی ناقابلِ فہم ہے۔ ان کی بستی میں پولیس یا محافظوں کی ضرورت کبھی محسوس نہیں ہوتی۔ ملکہ کا فرض صرف نسل کی بقاہے ‘وہ بستی کی سربراہ ہیں۔ان کے ہا ں گورنر ہوتا ہے نہ رہنما۔ا س لیے ان کے ہاں درجہ بدرجہ اوپر سے نیچے چلنے والا کوئی سلسلہ احکام بھی نہیں۔
ذات پات کا نظام
          ایک مثالی بستی میں چیونٹیوں کی تین بڑی ذاتیں ہوتی ہیں۔ پہلی ذات ملکاؤں اوران نروں کی ہے جو نسل کشی کا کام کرتے ہیں۔ملکہ اپنی تناسلی ذمہ داری کی وساطت سے کالونی کی تعمیر میں مصروف افراد کی تعداد کومتوازن رکھتی ہے۔ اس کا جسم دوسری چیونٹیوں سے بڑا ہو تاہے۔ دوسری طرف نر کی ذمہ داری صرف مادہ کو بارور کرنا ہے۔ تقریباً تمام نر اپنی پہلی عروسی پرواز کے بعد ہی موت سے ہمکنار ہوجاتے ہیں۔
        دوسری ذات سپاہی چیونٹیوں پر مشتمل ہے۔ یہ بستیوں کی دیکھ بھال ،شکار اورنئی رہائشی بستیوں کے لیے علاقے کی تلاش کا کام کرتی ہیں۔تیسری ذات کارکن چیونٹیوں کی ہے۔ ساری کارکن چیونٹیاں بانجھ مادائیں ہیں۔ ان کا کام مادر چیونٹی کی دیکھ بھال اوربچوں کی صفائی ستھرائی ہے۔بستی کے باقی سب کام بھی انہی کی ذمہ داری ہے۔ کارکن گھروندوں کی راہ داریاں اورگیلریاں بناتے ہیں ، خوراک تلاش کرتے ہیں اورگھروندوں کی صفائی کرتے ہیں۔ یہ مسلسل جاری وساری عمل ہے۔ کارکن اور سپاہی چیونٹیوں کی آگے چل کر مزید گروہ بندی ہوتی ہے۔ ان گروہوں کو غلام،چور،آیا ،معمار اورذخیرہ کرنے والوں کے نام دیے جاتے ہیں۔ہر گروہ کا اپنا کام ہے۔ ایک گروہ کی ساری توجہ دشمن کے خلاف جنگ یا شکار کی طرف ہوتی ہے۔ دوسرا گروہ گھروندے بناتاہے۔ ایک اور گروہ ایسابھی ہے جوان سب کی خبر گیری کرتاہے۔
ایک مثالی ہیڈکوارٹر
آئیے ہم چیونٹیوں کی بستی کے نظام کو ایک مثال سے سمجھتے ہیں۔فرض کریں کہ آپ ایک بہت ہی بڑے اورمکمل نظم وضبط کے حامل فوجی ہیڈکوارٹر پر پہنچتے ہیں۔یوں لگتاہے کہ آپ اس میں داخل نہیں ہوسکیں گے کیونکہ گیٹ پر متعین گارڈکسی ایسے شخص کو اندر نہیں جانے دیتے جسے وہ جانتے نہیں۔ ا س عمارت کی حفاظت ایک ایسے حفاظتی نظام کے تحت کی جاتی ہے جس کی سختی سے جانچ پڑتال کی جاتی ہے۔
          اب فرض کریں کہ اچانک آپ کو اندرجانے کا راستہ مل جاتاہے۔ اندرون خانہ جاری کئی متحرک اورمنضبط سرگرمیاں آپ کو متوجہ کرلیتی ہیں۔ہزاروں سپاہی ایک لگے بندھے نظام میں اپناکام کررہے ہیں۔ جب آپ اس تنظیم کا رازجاننے کی کوشش کرتے ہیں توآپ کو پتہ چلتاہے کہ عمارت بنائی ہی اس طرح گئی ہے کہ اس کے باشندے آرام دہ ماحول میں کام کرسکیں۔ہر کام کے لیے علیحدہ شعبہ ہے جس کا ڈیزائن ،سہولت کار کو مدنظر رکھ کر تیار کیا گیاہے۔ مثلاً عمارت اگرچہ زیر زمین تہہ خانوں اورکئی منزلوں پر مشتمل ہے لیکن سورج کی روشنی کی ضرورت ہے اس منزل کا محل وقوع ایسا ہے کہ زیادہ سے زیادہ روشنی اندر داخل ہو سکتی ہے اورجن شعبوں کو ایک دوسرے سے مسلسل واسطہ رہتاہے ایک دوسرے کے قریب بنائے گئے ہیں اوررسائی کو زیادہ سے زیادہ آسان بنایا گیا ہے۔ زائد از ضرورت سامان رکھنے کا شعبہ عمارت میں ایک طرف علیحدہ تعمیر کیا گیا ہے جہاں پر عام ضرورت کا سامان رکھا گیا ہے۔ اس کا محل وقوع ایسا ہے کہ ہر کسی کی رسائی آسانی سے ہو۔
        ہیڈ کوارٹر کے خدوخال یہیں تک محدودنہیں ہیں۔ تمام تر وسعت کے باوجودعمارت کو یکساں طورپر گرم رکھاگیا ہے۔  بہت ترقی یافتہ مرکزی حرارتی مرکز کی وجہ سے عمارت کو تمام دنکسی بھی مطلوبہ درجہ حرارت پررکھا جاسکتا ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ساری عمارت کو بیرونی موسمی حالات ، چاہے وہ کتنے شدید ہوں،سے بچانے کے لیے حاجز دیواروں کے اندر بنایا گیا ہے۔ اس کے علاوہ تقسیم کار کے لحاظ سے درج ذیل حصے یا شعبے پائے جاتے ہیں۔
1۔ فضائی دفاعی نظام
 جب چیونٹیوں کے سب سے بڑے دشمن حملہ آور ہوتے ہیں تو لڑاکا چیونٹیاں پشت کے بل الٹی لیٹ کر بستی کے سوراخوں سے اوپر پرندوں کی طرف تیزاب فائر کرتی ہیں۔
2۔ گرین ہاؤس
جنوبی رخ کے اس خانے میں ملکہ چیونٹی کے انڈے رکھے جاتے ہیں۔اس خانہ کادرجہ حرارت 38سینٹی گریڈ رکھا جاتا ہے۔
3۔ مرکزی دروازہ اوربغلی دروازے
 ان دروازوں پر چوکیدار چیونٹیاں متعین ہوتی ہیں۔ خطرے کی صورت میں یہ اپنے سر سوراخوں میں پھنسا کر دروازے بندکردیتی ہیں۔ بستی کی رہائشی چیونٹیاں داخل ہوناچاہیں تو اپنے سر پر لگے بال نما انٹینا سے چوکیدار کے سر پر دستک دیتی ہیں اوردروازہ کھل جاتاہے۔ اگرانہیں اپنی اس دستک کا طریقہ بھول جائے توچوکیدار انہیں وہیں ہلاک کردیتاہے۔
4۔ مردہ خانہ
 اس خانے میں چیونٹیاں اناج کے دانوں کے غیر استعمال شدہ خول اورمردہ چیونٹیوں کے جسم رکھتی ہیں۔
5۔ محافظوں کا کمرہ
 اس کمرے میں سپاہی چیونٹیاں 24گھنٹے تیاررہتی ہیں۔خطرے کا معمولی سااشارہ بھی ملے توفوراً جوابی عمل کرتی ہیں۔
5۔بیرونی حاجز تہہ
 عمارت کی بیرونی دیوار گھاس پھونس اورچھوٹی چھوٹی ٹہنیوں سے بنائی جاتی ہے۔ اسی وجہ سے بیرونی موسمی اثرات جیسے گرمی اورسردی وغیرہ عمارت کے اندرونی ماحول پر اثر انداز نہیں ہوتے۔
7۔ بچوں کی پرورش کا خانہ
 ا س کام پر متعین چیونٹیاں ایک سفید میٹھی رطوبت پیداکرکے جسم میں جمع رکھتی ہیں۔بوقت ضرورت پیٹ کو اپنے انٹینا سے چھید کر بچوں کو کھلاتی ہیں۔
8۔ گوشت کا ذخیرہ خانہ
 مکھیاں ،جھینگر ،دشمن چیونٹی اوردوسرے حشرات کو ہلاک کرنے کے بعد اس خانے میں رکھاجاتاہے۔
9۔ اناج خانہ
 چیونٹیاں اناج کے بڑے ٹکڑوں کو کتر کر چھوٹے چھوٹے ذرات میں تبدیل کرتی ہیں۔ یہ موسم سرما میں بطور ڈبل روٹی استعمال ہوتے ہیں۔
10۔ لاروا کی دیکھ بھال کا خانہ
اس جگہ لاورا کو خاص چیونٹیاں اپنا لعاب دہن لگاتی ہیں جس میں اینٹی بائیوٹک مرکبات شامل ہوتے ہیں۔اس طرح اُن کے بیمار ہونے کا امکان کم ہوجاتاہے۔
11۔ سردیوں کا خانہ
 سرمائی نیند سونے والی چیونٹیاں اس خانے میں نومبر سے مئی تک سوئی رہتی ہیں۔ جاگنے پر ان کا پہلا کام اس کمرے کی صفائی ہوتا ہے۔
12۔ عمارت کو گرم رکھنے کا انتظام
اس شعبے میں پتوں کے ٹکڑوں کو گھاس پھونس سے ملایاجاتاہے۔اس عمل سے خارج ہونے والی حرارت سے عمارت کا اندرونی درجہ حرارت 20سے 30سینٹی گریڈ تک رہتا ہے۔
13۔ انڈوں کا ذخیرہ
 اس خانے میں ملکہ کے انڈے ترتیب سے رکھے جاتے ہیں۔جو انڈہ ایک خاص عمر تک پہنچتاہے اسے اٹھا کر گرین ہاؤس میں پہنچادیا جاتاہے۔
14۔ شاہی کمرہ
 اس میں ملکہ انڈے دیتی ہے۔ اسے کھلانے اورصفائی کے ذمہ دار کارکن اسی جگہ ملکہ کے ساتھ قیام کرتے ہیں۔     اس صدی میں کی گئی تحقیقات سے پتہ چلتاہے کہ اس مخلوق میں ذرائع ابلاغ کا ناقابل یقین سلسلہ پایا جاتاہے۔ ”نیشنل جیوگرافک ”کی ایک اشاعت میں اسے یوں بیان کیا گیا ہے۔ ”ہر چیونٹی ، بڑی ہو یا چھوٹی ‘کے دماغ میں حسی اعضا کا ایک نظام ہوتا ہے جوکئی ملین کے حساب سے کیمیائی اوربصری پیغام وصول کرتااورسمجھتاہے۔ اس کا دماغ پانچ لاکھ اعصابی خلیوں سے مل کر بناہے۔ اس کی آنکھیں بھی ایک سے زیادہ عدسوں سے مل کربنی ہیں۔سرسے نکلے ہوئے  بال یعنی انٹینا وہی کام کرتے ہیں جو انسانی انگلیوں کی پوریں اورناک کرتی ہے۔ منہ کے نیچے دہانہ کے اندر کے ابھار ذائقہ محسوس کرتے ہیں۔اس کے بال کسی چیز کے ساتھ مس کرکے اسے پہچانتے ہیں”۔
         انہی حسی اعضا کی مدد سے چیونٹی کا بے مثال سلسلہ ابلاغ کام کرتاہے۔ و ہ ساری زندگی اس سے کام لیتی ہے۔ شکار کی تلاش اور تعاقب ،ساتھی کارکنوں سے رابطہ، بستی کی تعمیر اورحفاظت غرض یہ کہ ہر شعبہ ٔحیات میں انہی اعضا سے مدد لی جاتی ہے۔ ہم انسانوں کو حیران کردینے والا پانچ لاکھ اعصاب پر مشتمل یہ جال دو سے تین ملی میٹر کے جسم میں بناگیاہے۔ذہن میں رہے کہ پانچ لاکھ خلیوں پر مشتمل یہ نظام ایسی چیونٹی کے اندر موجود ہے جو انسانی جسم کا صرف دس لاکھواں حصہ ہے۔
کیمیائی پیغام رسانی یا ابلاغ
        چیونٹیوں کے مابین پیغام رسانی کیمیائی مادوں کے ذریعے ہوتی ہے۔ باہمی ابلاغ کے لیے جو کیمیائی مادے چیونٹیاں استعمال کرتی ہیں ان کا اجتماعی نام (Semio   Chemical)ہے۔ ان کیمیائی مادوں کو دوبڑی قسموں میں تقسیم کیاجاتاہے۔ فیرومون (Pheromones)اور ایلومونز (Allomones)۔
        جب مختلف انواع کے درمیان پیغام رسانی کی ضرورت ہو تو ایلومون استعمال کیا جاتاہے۔  لیکن ایک نوع سے تعلق رکھنے والی چیونٹیاں آپس میں پیغام رسانی کے لیے فیرومون استعمال کرتی ہیں اوریہی سب سے زیادہ استعمال ہونے والا خامرہ یعنی ہارمون ہے۔ یہ خامرہ ان کے جسموں میں موجود بے نالی غدود (Endocrine Gland) بناتے ہیں۔ایک چیونٹی اسے خارج کرتی ہے تودوسری چیونٹیاں اسے سونگھ کر یا چکھ کر پیغام سمجھ جاتی ہیں اوراس کے مطابق ردعمل دیتی ہیں۔
         جو چیونٹی خوراک تلاش کرتی ہے دوسری چیونٹیوں کو وہاں پہچانے کے لیے درج ذیل طریقہ اختیار کرتی ہے۔ بستی کی طرف واپسی کے سفر میں وہ وقفے وقفے سے پیٹ کو زمین کے ساتھ لگاتی اور خاص کیمیائی پیغام چھوڑتی چلی آتی ہے۔ لیکن یہ کام شکار یا خوراک سے بستی تک ایک چکر میں مکمل نہیں ہوتا۔ چیونٹی تین سے سولہ چکر میں اپنے گھروندے میں موجود چیونٹیوں سے رابطہ کرتی ہے۔  جب تک وہ انہیں ساتھ لے جانا نہیں چاہتی کوئی اس کے ہمراہ نہیں جاتا۔صرف وہی چیونٹیاں اس کے ہمراہ جائیں گی جنہیں انٹینا کے مس سے پیغام دیا گیاہے۔ عام طورپر پہلے ہر اول دستہ خوراک تک جاتاہے اورواپسی کے سفر میں ایک بار پھر راستے پر کیمیائی نشان لگا دیتاہے۔ اب جو چیونٹیاں خوراک تک جائیں گی انہیں سکاؤٹ یا رہنما چیونٹی کی ضرورت نہیں، وہ اسی کیمیائی طورپر متعینہ راستے پر چلتی ہوئی منزل تک پہنچ جاتی ہیں۔
          دریافت شدہ ذخیرہ خوراک تک رہنمائی کے لیے کئی طرح کے کیمیائی مادے استعما ل ہوتے ہیں۔مختلف مادے کیوں استعمال کیے جاتے ہیں؟ ماہرین کا اندازہ ہے کہ بستی اورذخیرہ خوراک تک ایک سے زیادہ راستے بنائے جاتے ہیں اورہر راستے پر الگ کیمیکل سے نشان لگا دیاجاتاہے۔ جب پیغام کی شدت میں کمی بیشی مقصود ہو تو پیغام رسانی کے لیے استعمال ہونے والے کیمیکل کی مقدار کم یا زیادہ کردی جاتی ہے۔ پیغام کی شدت عام طور پر بستی کے بھوکا ہونے یانئے گھروندوں کی ضرورت ظاہر کرتی ہے۔
کیمیائی ابلاغ میں لمس کا کردار
         چیونٹیا ںبستی میں نظم وضبط کے لیے ہدایات لینے اور دینے کے لیے ایک دوسرے کو انٹینا سے مس کرتی ہیں۔ اس لیے کہا جاسکتاہے کہ ان کے مابین ایک انٹینا زبان بھی موجودہے۔ لیکن اس زبان کا استعمال محدود ہے۔ اسے کھانا یا میٹنگ وغیرہ شروع ہونے کی اطلاع یا شرکت کے لیے استعمال کیا جاتاہے۔ یہ زبان زیادہ ترایک نوع کی چیونٹیاں اور  ان میں سے بھی زیادہ تر کارکن استعمال کرتی ہیں۔
           چیونٹیوں کی کچھ انواع دعوت دینے کے اس طریقے سے زیادہ کام لیتی ہیں۔ اس کی مثال (Bypo Ponera) نوع ہے۔ اس نسل کے دو کارکن آمنے سامنے آتے ہیں تو مدعو کرنے والی چیونٹی اپنا سر نوے درجے کے زاویے پر ایک طرف موڑ لیتی ہے اور اپنی دوست کے سر کے بالائی اورزیریں حصے کو اپنے انٹینے سے چھوتی ہے ،جسے دعوت دی جارہی ہے۔ وہ بھی یہی عمل دہراتی ہے۔ لیکن جب ایک گھروندے کی چیونٹیاں اس طرح مس کرتی ہیں تومقصد اطلاع دینا نہیں بلکہ دوسرے کے خارج کردہ ہارمون حاصل کرکے اطلاع لیناہو تا ہے۔ ایک چیونٹی دوسرے کے ہارمون لے لیتی ہے اورآگے بڑھ جاتی ہے۔ اب وہ اس قابل ہے کہ اس کے راستے کو سونگھ کر پہچانتی اوراس پرچلتی ہے۔ا س طرز ابلاغ کی ایک دلچسپ مثال اس وقت سامنے آتی ہے جب مس کیے جانے پر ایک چیونٹی اپنے جسم میں محفوظ شدہ خوراک نکا ل کر مس کرنے والی چیونٹی کو کھلاتی ہے۔
اس موضوع پر ایک دلچسپ تجربے میں ما رمیکا (Myrmica)کو استعمال کیا گیا۔ انسانی بال سے ان کے مختلف حصوں کو چھیڑا گیا تووہ خوراک جسم سے اگلنے پر آمادہ ہوگئیں۔ سب سے جلد ی وہ چیونٹیاں تیارہو تی ہیں جنہوں نے ابھی ابھی کچھ کھایا ہواوروہ اپنے گھروندے میں رہنے والی دوست کی تلاش میں ہوں کہ اسے بھی خوراک میں شامل کیا جائے۔ بعض طفیلی حشرارت الارض اپنی خوراک اسی طریقہ سے حاصل کرتے ہیں۔وہ صرف اتناکرتے ہیں کہ اپنے انٹینا اوراگلی ٹانگوں سے چیونٹی کے جسم پر دستک دیتے ہیں اوروہ اپنے جسم سے خوراک نکال کر اسے پیش کردیتی ہے۔
ابلاغ بذریعہ آواز
           چیونٹیاں بذریعہ آواز بھی پیغام رسانی کرتی ہیں۔ان میں دو طرح کی آوازیں دو مختلف طریقوں سے پید اکی جاتی ہیں۔ایک آواز تھپتھپاہٹ نما ہے اوردوسری تیکھی آواز۔ تھپتھپاہٹ نما آواز پید اکرنے کے لیے چیونٹیاں زمین یا کسی اورچیز پر اپنے جسم کے کسی حصے سے دستک دیتی ہیں جبکہ تیز آواز پید اکرنے کے لیے جسم کا کوئی حصہ کسی دوسرے  حصے سے رگڑا جاتاہے۔ دستک سے آواز پیدا کرنے کا طریقہ درختوں کے تنوں میں بنی بستیوں میں استعمال ہوتاہے۔
اس کی ایک مثال کارپینٹر چیونٹیاں یابڑھئی چیونٹیاں ہیں۔ جب انہیں یہ پتہ چلتاہے کہ کوئی خطرہ بستی کی طرف بڑھ رہاہے تو ڈھو ل پیٹنا شروع کردیتی ہیں۔خطرے کاادراک زمین کے ارتعاش، ہوا کی لہر یا جسمانی لمس سے کیاجاتاہے۔ پیغام دینے والی چیونٹی اپنے سر اورپیٹ کو زمین سے ٹکرانے لگتی ہے اوراس سے پیدا ہونے والا ارتعاش کئی ڈیسی میٹر دورتک محسوس ہوتاہے۔امریکہ کی کارپینٹر چیونٹیاں یابڑھئی چیونٹیاں اپنا سر یا پیٹ لکڑی کے ”کمروں”کی دیواروں سے ٹکرا کر 20سینٹی میٹر دورتک پیغام بھیج سکتی ہیں۔اگرجسامت کے تناسب سے دیکھا جائے تو چیونٹی کے لیے 20سینٹی میٹرانسانی حساب سے کوئی 60سے 70میٹر تک ہوتاہے۔
ایک اور سائنس دان پروفیسر رابرٹ ہیکلنگ نے بھی چیونٹیوں کے متعلق برسوں تحقیق کے بعد ان کی آوازوں کو ریکار ڈ کیا ہے اور کہا ہے کہ چیونٹیوں کی آواز کی فریکوئنسی ایک چیونٹی سے دوسری چیونٹی تک اور پھر ایک نوع کی چیونٹیوں سے دوسری نوع کی چیونٹیوں کے درمیان بدلتی رہتی ہے ۔ انہوں نے چیونٹیوں کی موقع ومحل کے لحاظ سے مثلا ً نارمل حالات، خطرے کے وقت اور کسی کیڑے پر حملہ کرنے کے دوران بولے جانے والی مختلف آوازوں کو ریکار ڈ کیا ہے (چیونٹیوں کی یہ آوازیں انٹرنیٹ پر دستیاب ہیں)اور اپنی اس تحقیق کو  2006 ء میں شائع ہونے والے میگزین  (Journal of Sound and Vibration) میں شائع کیا ہے۔سائنسدانوں کا خیال ہے کہ چیونٹیاں ایک دوسرے تک اپنی آواز پہنچانے کے لیے اپنے انٹینا کا استعمال کرتی ہیں ۔ وہ اپنے اس انٹینے کے ذریعے دوسری چیونٹی کے ارسال کردہ پیغام کو ناصرف کسی بھی جدید ریسیور کی طرح کمزور پہنچنے والے سگنلز کو مضبوظ بناتی ہیں بلکہ ان کو اس حد تک فلٹر بھی کرتی ہیں کہ وہ جان سکیں کہ یہ پیغام کس چیونٹی نے ارسال کیا ہے ۔
نسل کی بقا
          ہوسکتاہے بظاہر سب چیونٹیاں ایک سی نظرآئیں لیکن طرزِزندگی اورجسمانی تنوع کے اعتبار سے انہیں مختلف ذیلی انواع میں تقسیم کیاجاتاہے۔ چیونٹیوں کی تقریباً 12000مختلف انواع ہیں۔ان کی بستی زیادہ تر مادہ چیونٹیوں پر مشتمل ہوتی ہے۔نر چیونٹیوں کی زندگی مختصر ہوتی ہے۔ ان کا کام صرف بالغ ہونے پر ملکہ کے ساتھ ملاپ کرناہے۔ تمام کارکن چیونٹیاں مادہ ہوتی ہیں۔
         چیونٹی کا جنسی ملاپ اچھی خاصی تقریب ہوتی ہے۔ یہ ملاپ زیادہ تر ہو امیں ہوتاہے۔ نر پہلے پہنچ جاتے ہیں اور نوجوان ملکہ کا انتظارکرتے ہیں۔ملکہ کے بھی اوائل عمری میں پر ہوتے ہیں۔جب ملکہ زمین پر اترتی ہے تو پانچ چھ نر اس کے گرد دوڑنے لگتے ہیں۔ جب ملکہ ضرورت کے مطابق نر تخم اکٹھے کرلیتی ہے توایک خاص ارتعاشی اشارہ دیتی ہے۔ اس اشارے سے نر کو ملکہ کی روانگی کا پتہ چل جاتاہے۔ ملکہ کے رخصت ہونے کے بعد نر چند گھنٹے یا زیادہ سے زیادہ ایک آدھ دن زندہ رہ سکتے ہیں۔ تاہم یہ عمل بہت دلچسپ ہے۔ عروسی پرواز پر جانے والے ہر نر نے مرنے سے پہلے اپنا تخم ضرور چھوڑاجن میں سے اس کے بچے اس کے مرنے کے لمبا عرصہ بعد نکلتے ہیں۔لیکن یہ تخم اتنا لمبا عرصہ کس طرح رہتے ہیں کہ انڈوں کو بعد ازاں بارور کرسکیں۔کیا چیونٹیوں نے کسی اعلیٰ ٹیکنالوجی کی مدد سے کوئی تخم بینک قائم کرلیاہے۔
         جی ہاں! ہر ملکہ چیونٹی کے اندر تخم بینک موجود ہوتاہے، ا س کے جسم کے وسطی حصہ میں ایک کنارے پر ایک تھیلی میں تخم محفوظ رہتے ہیں۔ اس تھیلی کو (Sperma Theca) کانام دیا جاتا ہے۔ ا س میں تخم سالوں تک بے حس وحرکت پڑے اپنی باری کاانتظار کرتے رہتے ہیں۔بالآخر جب ملکہ اس تھیلی میں سے انہیں بہنے کی اجاز ت دیتی ہے تویہ ایک ایک کر کے یا گروہوں میں تناسلی علاقوں میں بیضہ دانوں سے نکل آنے والے انڈوں کو بارور کرنے نکل پڑتے ہیں۔اس کامطلب یہ ہوا کہ انسان نے جو سپرم بینک گزشتہ پچیس سال میں انتہائی جدید ٹیکنالوجی کے استعمال سے بنائے انہیں چیونٹی لاکھوں سال سے استعمال کررہی ہے۔
کارکن چیونٹیوں کی قربانی
          ملکہ چیونٹی انڈے دیتی ہے جن سے نکلنے والے بچوں کو گھروندے میں بنے مخصوص خانوں میں رکھا جاتاہے۔ اگر ان خانوں میں درجہ حرارت اوررطوبت کی صورت حال کسی وجہ سے مناسب نہ رہے تو کارکن چیونٹیاں انہیں اٹھا کر زیادہ مناسب جگہ پرلے جاتی ہیں۔یہی صورت حال انڈوں کے ساتھ ہے۔ کارکن انڈوں کو دن کے وقت گھروندے کی سطح پرلے جاتی ہیں تاکہ انہیں سورج کی گرمی اورروشنی میسر رہے۔ بارش کی صورت میں اوررات ہونے پر یہی انڈے اندر منتقل ہو جاتے ہیں۔انڈوں اور لاروے کی دیکھ بھال پر مامور چیونٹیاں آپس  میں مزید تقسیم ِکار کر لیتی ہیں۔ان میں سے کچھ کی ذمہ داری لاروے کی جگہ تبدیل کرناہوتاہے۔کچھ ان کے لیے خوراک تلاش کرتی ہیں جو ان کے نظام ہضم سے مطابقت رکھتی ہے۔ کچھ گھروندے کے اس خاص خانے کا درجہ حرارت  مناسب حدود کے اندر رکھنے کابندوبست کرتی ہیں۔انسان نے دیواروں میں غیر موصل لگا کر درجہ حرارت پر قابو رکھنے کا طریقہ بہت دیر میں سیکھا۔ چیونٹیاں اس کا استعمال لاکھوں سال سے کررہی ہیں۔
نتیجہ
           ان سارے مشاہدات کا حاصل کیا ہے ؟اس کا جواب سادہ اورایک ہی ہے۔ اگر ان جانوروں کو آگہی نہیں کہ وہ کیا کررہے ہیں تودراصل ا ن کے سارے افعال ہمیں کسی اورا رفع اوراعلیٰ ذہن سے متعارف کروانے کا ذریعہ ہیں۔جس خالق نے چیونٹی کو تخلیق کیا اوراس سے ایسے کام لیے جو بظاہر اس کی استطاعت سے بہت بڑے ہیں تودراصل وہ ان کے ذریعے اپنا وجود اوراپنی تخلیقی عظمت کا اظہار کر رہا ہے۔ چیونٹی دراصل ازلی القا کے تحت کام کررہی ہے اور اس سے جو کچھ سرزد ہورہا ہے دراصل اس کے خالق کی دانش کاعکاس ہے۔(3)
……………………………………………………………….

حواشی

(1)۔   النمل ، 27:17-18
(2)۔ قرآن اینڈ ماڈرن سائنس ، از ڈاکٹر ذاکر نائیک ،صفحہ 40
(3)۔ چیونٹی ایک معجزہ ۔ ہارون یحیٰی
 http://www.harunyahya.com/urdu/books/book_the_ants/preface.html
http://home.olemiss.edu/~hickling
http://www.city-data.com/forum/pets/709489-when-ants-speak.html

نظریہ اضافیت خطرے میں، روشنی سے تیز رفتار ذرات

کائنات کی تخلیق کا کھوج لگانے کے لیے سائنس دان کئی برسوں سے سب سے چھوٹے ایٹمی ذرے پر تحقیق کررہے ہیں، جس کے بارے میں ان کا خیال ہے کہ وہ کائنات میں نہ صرف ہر جگہ اور ہر چیز میں موجود ہے بلکہ وہ کائنات کے وجود کا اصل سبب بھی ہے۔ تین برس سے جاری تجربوں سے پتاچلا ہے کہ اس کی رفتار روشنی کی رفتار سے تیز ہے۔ اس تحقیق نے آئن سٹائن کے نظریے کو باطل کردیاہے،
اب سائنس دانوں کے سامنے سوال یہ ہے کہ آیا جدید سائنس کی بنیاد ایک ٹیڑھی اینٹ پر رکھی گئی ہے؟
آج تک یہ کہاجاتا رہاہے کہ اس کائنات کی سب سے تیزرفتار چیز روشنی ہے ، جس کی گرد کوئی نہیں پاسکتا ۔ اس نظریے کو جدید سائنس کی بنیاد سمجھا جاتا ہے ،مگرسائنس دانوں کی ایک ٹیم  نے اپنے  حالیہ تجربات کے بعد اسے باطل قرار دے دیا ہے ۔
آج کی جدید طبعیات، جس کاتعلق، ایٹم کی ساخت اور کائنات کے اسرار ورموز سے ہے، آئن سٹائن کے نظریہ اضافت پر کام کررہی ہے۔ انہوں نے یہ نظریہ  1905ء میں پیش کیا تھا جس کے مطابق  توانائی اور مادے کو ایک دوسرے میں تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ ان کےنظریے میں روشنی کی رفتار کو بنیادی  اہمیت دی گئی ہے۔ جس کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ  ایک لاکھ 86 ہزارمیل فی سیکنڈ کی رفتار سے سفر کرتی ہے۔
روشنی کائنات کی ایک  اہم ترین توانائی ہے اور اس کائنات میں موجود  چیزوں کے وجود کا احساس ہمیں روشنی ہی دلاتی ہے۔ جدید فزکس میں  ستاروں ، سیاروں اور کہکشاؤں کے درمیان فاصلوں اور رفتار کا تعین روشنی کی رفتار سے ہی کیا جاتا ہے۔ مگر اب فزکس اور کائنات کی تخلیق پر تحقیق کرنے والی دنیا کی سب سے بڑی تجربہ گاہ کے سائنس دانوں نے کہاہے کہ مسلسل تین سال سے جاری ان کے حالیہ تجربوں سے یہ ثابت ہوا کہ’ نیوٹرینو‘ کی رفتار روشنی کی رفتار سے تیز ہے۔
نیوٹرینوکیاہے؟
نیوٹرینو ایٹم کا انتہائی مختصر جزو ہے ۔ اس میں مادے کی انتہائی قلیل مقدار ہوتی ہے۔ اس پر کوئی منفی یا مثبت برقی چارج نہیں ہوتا۔ وہ بلاروک ٹوک ہر چیز کے اندر سے، اپنے وجود کا احساس دلائے ، یا اس میں کوئی تبدیلی لائے بغیر گذر سکتا ہے۔  نیوٹرینو کائنات میں ہر جگہ موجود ہے۔ سورج کے اندر سے روشنی، حرارت اور دیگر تابکاری کے ساتھ نیوٹرینو بھی خارج ہورہاہے۔ اور یہ عمل کائنات میں توانائی اور  تابکاری پیدا کرنے والی ہر چیز میں جاری ہے۔
کائنات کی تخلیق  سے متعلق تحقیق کے لیے گذشتہ چند برسوں  سے جنیوا کے نزدیک سب سے بڑی تجربہ گاہ ’سرن ‘ میں ایسے ذرات پر تجربات کیے جارہے ہیں جنہیں بعض سائنس دان ’گارڈ پارٹیکل‘ بھی کہتے ہیں۔ اور ان  کے بارے میں یہ تصور ہے کہ وہ کائنات کی ہر چھوٹی سے چھوٹی اکائی میں موجود ہے۔ سرن لیبارٹری  میں  تحقیق کرنے والے سائنس دانوں کے ایک ترجمان ایتونیوفریدیتالتو نے23 ستمبر  کو یہ اعلان کیا کہ تجربات سے یہ ثابت  ہوگیاہے کہ نیوٹرینو کی رفتار روشنی کی رفتار سے زیادہ ہے۔ اگرچہ یہ فرق بہت معمولی ہے۔
اس تجربے کے دوران نیوٹرینوز کو سرن لیبیاٹری سے اٹلی میں سات سو کلو میٹر کے فاصلے پر واقع گران ساسو کی تجربہ گاہ میں بھیجا گیا اور اس کی رفتار کی پیمائش کی گئی۔انہوں نے بتایا کہ نیوٹرینو کی بیم اپنے مقررہ مقام پر روشنی کے مقابلے میں 60 نینو سیکنڈ پہلے پہنچ گئی۔ ایک سیکنڈ کا ایک ارب واں حصہ نینو سیکنڈ کہلاتا  ہے۔
ترجمان نے کہاہے کہ اس اعلان سے قبل سائنس دانوں نے اپنے نتائج کی بار بار جانچ پڑتال کی ہے اور ہر طرح  کے اطمینان اور تصدیق  کے بعد یہ  نتائج جاری کیے جارہے ہیں۔ ترجمان نے یہ بھی کہا کہ اس تحقیق کو دنیا بھر کے سائنس دانوں کے مطالعے اور مزید تحقیق  و تصدیق کے لیے ویب پر ڈالا جارہاہے۔ سیرن لیبارٹری  ایک زیر زمین تجربہ گاہ ہے جو روم سے 120 کلومیٹر جنوب میں واقع ہے۔اس لیبارٹری میں  جوہری ذرات کو کائنات میں پائی جانے والی کائناتی لہروں سے محفوظ رکھنے کے  خصوصی انتظامات کیے گئے ہیں۔ اس طرح کی  چھوٹی تجربہ گاہیں امریکہ میں بھی موجود ہیں۔
نئے امکانات کیا ہیں؟
ان نتائج کے بعد عام سائنسی معمولات پر بظاہر کوئی بڑا اثرنہیں پڑے گا مگرروشنی کی رفتار اور وقت سے متعلق  سائنسی قوانین کا ممکن ہے کہ پھر سے جائزہ لینا پڑے۔ رفتار کی طرح وقت کائنات کی ایک اہم حقیقت ہے۔رفتار اور وقت کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔ جیسے جیسے رفتار بڑھتی ہے، وقت اسی  تناسب سے سست پڑتاجاتا ہے۔جس نسبت سے وقت سست پڑتا ہے، اسی تناسب سے عمر میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ مثال کے طورپر اگر کوئی شخص کسی ایسے خلائی جہاز میں سوار ہوجاتا ہے جس کی رفتار روشنی کی رفتار کے دسویں حصے کے برابر ہے۔ تو اس شخص کی عمر زمین پر رہنے والوں کے مقابلے میں دس گنا زیادہ ہوگی۔
 اس اصول کے تحت جب کوئی چیز روشنی کی رفتار کو پہنچ جائے تو وقت کی رفتار صفر ہوجاتی ہے۔ گویا وقت تھم جاتا ہے۔ چونکہ ایسا ناممکن سمجھا جاتا ہے، اس لیے سائنس دان اب تک یہ کہتے آئے ہیں کہ کوئی چیز روشنی کی رفتار کو نہیں پہنچ سکتی۔ لیکن اب اس نئی دریافت کے بعد، ٹائم مشین  کے تصور پر بھی سوال کھڑے ہوگئے ہیں۔  یعنی ایسی مشین کی ایجاد کے بارے میں  جس کے ذریعے انسان اپنے ماضی میں سفر کرسکے اور خود کو ماضی میں چلتا پھرتا دیکھ سکے۔  کیونکہ نیوٹرینو نے روشنی کی رفتار سے زیادہ رفتار حاصل کرنے کے بعد بھی اپنا سفر جاری رکھاہے اور وہ ماضی یعنی واپسی کی طرف نہیں گئے۔
روشنی سے تیز رفتار جوہری ذرے کی دریافت سائنسی دنیا کی ایک ایسی اہم ترین پیش رفت ہے جس نے آئن سٹائن کے نظریہ اضافیت کے ایک صدی کے طلسم  کو توڑدیا ہے۔ مگر سائنس میں کوئی چیز حرف آخر نہیں ہوتی اور آج کے جدید سائنس کی بلندوبالا عمارت کی بنیادیں ماضی کے سائنسی نظریات کی قبروں میں پیوسط ہیں۔

پاکستان کو امریکی دھمکیاں اور ہمارے سیاستدانوں کے رویے

 امریکی فوج نے ایک بار پھر الزام لگایا ہے کہ پاکستان افغانستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث ہے اور حقانی گروپ آئی ایس آئی کی اصل طاقت ہے یہی لوگ افغانستان میں دہشت گردوں کو بھیج رہے ہیں۔ افغانستان میں امریکی سفارتخانے پر حملے میں بھی حقانی گروپ ملوث ہے جس کی آئی ایس آئی نے بھر پور مدد کی۔ پاکستان خطے میں اپنی پوزیشن اور اقتصادی صورتحال کو لاحق خطرات ذہن میں رکھے،پاکستان کی جانب سے بار بار کی تردید کے باوجود امریکی فوج کے سر براہ مائیک مولن نے جمعرات کو امریکی سینیٹرز کے سامنے بیان دیتے ہوئے الزام لگایا کہ پاکستان میں حقانی گروپ پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کی اصل طاقت ہے اور افغانستان میں امریکی فوجوں کو نشانہ بنانے میں حقانی گروپ ہی ملوث ہے اور اس سلسلے میں پاکستان کی خفیہ ایجنسی حقانی گروپ کی بھر پور مدد کر رہی ہے۔
ایڈمرل مائیک مولن نے الزام لگاتے ہوئے کہا کہ انتہاء پسندی اور تشدد کو بطور ہتھیار کے طور پر استعمال کر کے پاکستان کی حکومت خصوصاً پاکستان آرمی اور آئی ایس آئی ناصرف پاک امریکہ اسٹرٹیجک پارٹنر شپ کو خطرات میں ڈال رہی ہیں بلکہ خطے میں باوقار قوم کے طور پر اپنے اثرورسوخ کو بھی داؤ پر لگا رہے ہیں،انہوں نے دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ افغانستان میں دہشت گردوں کو بھیج کر پاکستان اپنی قومی سلامتی اور خطے میں اپنی پوزیشن کو خطرے میں ڈال رہا ہے اس لیے پاکستان کو بیرونی ساکھ اور اقتصادی صورتحال کو لاحق خطرات کوذہن میں رکھنا ہو گا۔
واضح رہے کہ مائیک مولن اور امریکی وزارت دفاع کی جانب سے پاکستان پر رواں ہفتے سے شدید الزامات عائد کیے جا رہے ہیں اور پاکستان کے اندر سخت کارروائی کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں جس پر پاکستان کے دفتر خارجہ سمیت تمام اعلیٰ حکام نے امریکی الزامات کی مکمل تردید کرتے ہوئے انہیں بے بنیاد قرار دیاہے تاہم پاکستان کی جانب سے بار بار تردید کے باوجود امریکی حکام کی جانب سے پاکستان پر حقانی نیٹ ورک کی حمایت کے الزامات لگانے کا سلسلہ جاری ہے۔
جبکہ دوسری جانب وزیر اعظم کے دورہ چارسدہ کے بعد اے این پی کی طرف سے ایم کیو ایم کے لئے خیرسگالی کے جذبات پر مبنی بیان کے آتے ہی دونوں جماعتوں کے درمیان بداعتمادی اورمخالفت کی برف پگھلنے لگی ہے اور اگلے مرحلے میں ایم کیوایم کے قائد الطاف حسین نے دوقدم آگے بڑھتے ہوئے اپنا وہ الزام جس میں انہوں نے اے این پی پر امریکہ سے لاکھوں ڈالر لینے کی بات کی تھی نہ صرف واپس لے لیا ہے  بلکہ انہوں نے اپنے اس بیان پر اے این پی کی قیادت او رکارکنان سے معذرت بھی کی ہے، جس سے اُن کی پریس کانفرنس کے غیرسنجیدہ ہونے پر مزید سوالات اُٹھائے جا رہے ہی۔ الطاف حسین کی ا س معذرت کااسی دن اے این پی کے قائد اسفندر یار ولی خان نے اگر ایک طرف خیرمقدم کیا تو دوسری جانب انہوں نے بھی ایم کیو ایم کے خلاف لگائے جانے والے اپنے الزامات واپس لینے کااعلان کر کے دونوں جماعتوں کے اچھے تعلقات کو جمہوریت کے لئے ناگزیر قرار دیا۔اور اب جبکہ دونوں جماعتوں نے ایک دوسرے پر عائد الزامات واپس لے لئے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ جو بھی الزامات عائد کئے گئے تھے وہ سب غلط تھے۔ کیا یہ پاکستان کی بدقسمتی نہیں کہ ایک نازک وقت میں ہمارے سیاست دان اس قسم کی روش پر چل رہے ہیں، جبکہ عوام ایسی قیادت کی راہ دیکھ رہی ہے جو اُسے گھمبیر مسائل سے نجات دلا سکے۔
  ایم کیوایم کی حکومت میں واپسی کی اطلاعات پر اے این پی کاتاحال کوئی تازہ ردعمل سامنے نہیں آیا حالانکہ چند دن پہلے تک اے این پی اس بات کابرملا اظہار کررہی تھی کہ ایم کیو ایم کی حکومت میں واپسی پر ا س کے نہ صرف شدید تحفظات ہیں بلکہ اس نے ایم کیوایم کی دوبارہ حکومت میں شمولیت پر حکومت سے علیحدگی کی دھمکی بھی دی تھی۔اب اچانک ان دونوں جماعتوں کے رویوں میں یوٹرن اوران دونوں جماعتوں کا اپنے اپنے الزامات واپس لینے سے بظاہر کراچی میں کسی حد تک امن کی بحالی کی امید تو پیدا ہو گئی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ ان دونوں جماعتوں نے اب تک ایک دوسرے کے خلاف غداری ، وطن دشمنی، امریکی ایجنٹ ہونے اور کراچی کے قتل وغارت میں ملوث ہونے کے جوسنگین الزامات عائد کئے ہیں ان کا کیا بنے گا ۔ ان دونوں جماعتوں کواقتدار کے کیک میں ان کی خواہش کے مطابق حصہ ملنے کے بعداب اگریہ دونوں جماعتیں ایک دوسرے کو معاف کرکے دوبارہ بغلگیر ہوتی ہیں تو اس پر توان دونوں جماعتوں کے ماضی کو مدنظر رکھتے ہوئے شاید کسی کو کوئی خاص اعتراض نہیں ہوگالیکن سوال یہ ہے کہ اس دوران کراچی میں جتنا خون بہہ چکاہے اور ا س خون ریزی سے جتنے گھر اجڑ چکے ہیں اور اربوں روپے کاجو اقتصادی نقصان ہوچکاہے اس کا مداوا کون کرے گا.

بادل،اولے اور بارش کا میٹھا پانی اللہ کی قدرت کی نشانیاں

 بادل پانی کے ننھے قطروں یا نمی کے چھوٹے چھوٹے ذروں کے ملنے سے بنتے ہیں ،جب آبی بخارات ٹھنڈے ہو جاتے ہیں تویہ پانی یا نمی کے ذروں کی صورت اختیار کرلیتے ہیں۔بادل پانی کے قطروں کا مجموعہ ہوتے ہیں یانمی کے ذروں کے ملنے سے بنتے ہیں۔ پانی کے بخارات بھی بہت بلندی پر پہنچ کر نمی کے ذرات کی شکل اختیار کرلیتے ہیں۔یہ ذرات لاکھوں بلکہ کروڑوں کی تعداد میں اکٹھے ہو کر ایک گروپ کی شکل اختیار کر لیتے ہیں جنہیں بادل کہاجاتا ہے۔ ان بادلوں کا کوئی رنگ نہیں ہوتا۔بلکہ صاف شفاف ہوتے ہیں ، سورج کی روشنی انہیں مزید سفید اورچمک دار بنادیتی ہے اورجب وہ آسمانوں میں تیر رہے ہوتے ہیں تو ان سے مختلف تصاویر اوراشکال بنتی ہوئیں نظر آتی ہیں۔بعض دفعہ آسمان پر بہت بڑا بادل بن جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہوتی ہے جب چھوٹے چھوٹے بادلوں کی بہت سی تہیں ایک جگہ اکٹھی ہو جاتی ہیں تو بڑے بادلوں کی صورت اختیار کر لیتی ہیں۔ایسے بادل سورج کی شعاعوں کو زمین تک پہنچنے نہیں دیتے اور ان میں رکاوٹ ڈال دیتے ہیں لہٰذا ایسا دن ابر آلود کہلاتا ہے۔
ایسا اتفاق بھی ہوتا ہے کہ بادل آسمانوں پر بہت بلندی پر چلے جاتے ہیں جہاں بہت زیادہ سردی ہوتی ہے۔ وہاں ننھے آبی بخارات جم جاتے ہیں۔تب یہ ذرات ہو ا میں نیچے کی طرف تواتر سے گرنا شروع ہوجاتے ہیں،جنہیں برف باری یا اولے پڑنا کہتے ہیں۔ پانی کے یہی ننھے قطرات جب آسمان کی بلندیوں کو چھوئیں تو بادل کہلاتے ہیں لیکن جب یہی بادل زمین کی سطح تک آجائیں توانہیں دھند کہا جانے لگتا ہے۔ پس جب ہم دھند میں چل پھررہے ہوتے ہیں توگویا بادلوں کے اندر گھوم رہے ہوتے ہیں۔
آب وہوا ہی موسم میں تبدیلیا ں لاتی ہے اورسردی یا گرمی کے فرق کو نمایا ں کرتی ہے۔ جب بادل چھٹ جاتے ہیں تو آب وہوا موسم کے درجہ حرارت میں معمولی سا اضافہ کردیتی ہے۔ پانی کے بخارات اگرچہ ہو امیں تیرتے رہتے ہیں ، لیکن د کھائی نہیں دیتے، جونہی ہوا ٹھنڈی ہوتی ہے تو آبی بخارات پانی کے بڑے بڑے قطروں میں دوبارہ تبدیل ہو جاتے ہیں اورجب یہ بہت بھاری ہو جاتے ہیں تو ہوا میں معلق ہو کر زمین کی طرف آنا شروع کردیتے ہیں۔ پس پانی کے لاکھوں کروڑوں قطروں کا ایک ساتھ زمین کی طرف گرنا بارش کہلاتا ہے۔
اولے کیا ہیں؟
کچھ چیزیں ایسی بھی ہیں جو آسمانوں میں بنتے وقت کسی اورشکل میں ہوتی ہیں لیکن زمین تک پہنچتے پہنچتے ان کی شکل وصورت بالکل تبدیل ہوجاتی ہے ،ان میں اَولے سرفہرست ہیں۔ اَولے بارش کی طرح سے ہی شروع ہوتے ہیں لیکن پانی کے کچھ قطرات ہو اکی تیزی سے نیچے گرنے کے بجائے بہت اونچائی پر چلے جاتے ہیں۔جہاں بہت زیادہ ٹھنڈ ہوتی ہے جس سے وہ جم جاتے ہیں اور جمنے کے بعد نیچے گرنا شروع کردیتے ہیں لیکن جونہی نیچے کی طرف آتے ہیں ہوا ان کو دوبارہ اوپر بھیج دیتی ہے جس سے برف کی کئی تہیں جم جاتی ہیں اوربالآخر وہ نیچے زمین کی طرف آجاتے ہیں۔یہ عمل باربار ہوتا ہے۔ یعنی ہر دفعہ جب پہلے اَولے گرتے ہیں تو دوبارہ یہی عمل ہو تا ہے اور پھر نئے اَولے بن جاتے ہیں۔
بعض اوقات تو ایسے اَولے بھی دیکھے گئے ہیں جو بیس بال (Base Ball)جتنے بڑے تھے۔اگر ان اَولوں کو درمیان میں سے کاٹ کر دیکھیں تو ان میں بہت سی تہیں ایک دوسرے کے اوپر چڑھی ہوئی دکھائی دیں گی۔ ان تہوں سے بخوبی اندازہ لگا یا جاسکتاہے کہ ایک اولے کو زمین تک آنے سے پہلے کتنی بارفضا کی بلندیوں میں اوپر نیچے ہوناپڑتا ہے تب جاکر وہ زمین کی سطح پر گرتے ہیں۔اوریہ سب ہو ا کی بدولت ہوتاہے۔ (1)
موسمی ریڈار کی ایجاد کے بعد ہی یہ دریافت کر نا ممکن ہو اہے کہ وہ کون کون سے مراحل ہیں جن سے گزرکر بارش یہ شکل اختیار کرتی ہے۔ اس دریافت کے مطابق بارش تین مراحل سے گزر کر اس شکل میں آتی ہے۔ پہلامرحلہ ہواکی تشکیل کاہے ،دوسرا بادلو ں کے بننے کا اور تیسرا بارش کے قطروں کے گرنے کا۔قرآن میں جو کچھ بارش کی تشکیل کے بارے میں بتایا گیا ہے وہ اور جو کچھ ان دریافتوں سے پتہ چلا ہے دونوں کے درمیان بڑی مماثلت پائی جاتی ہے۔ جب ہوائیں بادلوں کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں کو دھکیل کر اکٹھا کرتی ہیں تو یہ بڑے بڑے بادلوں کے پہاڑوں میں تبدیل ہوجاتے ہیں اور پھران کے آپس میں ٹکرانے سے آسمانی بجلی پیدا ہوتی ہے اور بالآخر بارش شروع ہو جاتی ہے۔اس حقیقت کی طرف درج ذیل آیا ت میں اشارہ کیا گیا ہے:
(اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰہَ یُزْجِیْ سَحَابًا ثُمَّ یُؤَلِّفُ بَیْنَہ ثُمَّ یَجْعَلُہ رُکَامًا فَتَرَی الْوَدْقَ یَخْرُجُ مِنْ خِلٰلِہ ج وَیُنَزِّلُ مِنَ السَّمَآءِ مِنْ جِبَالٍ فِیْھَا مِنْ م بَرَدٍفَیُصِیْبُ بِہ مَنْ یَّشَآءُ وَیَصْرِفُہ عَنْ مَّنْ یَّشَآءُ ط یَکاَدُ سَنَا بَرْقِہ یَذْھَبُ بِا لْاَبْصَارِ)
”کیا تم دیکھتے نہیں کہ اللہ بادل کو آہستہ آہستہ چلاتا ہے پھر بادل(کے اجزا)کو آپس میں ملا دیتاہے پھر اسے تہہ بہ تہہ بنا دیتا ہے پھر تو دیکھتا ہے کہ اس کے درمیان سے بارش کے قطرے ٹپکتے ہیں اور وہ آسمان سے ان پہاڑوں کی بدولت جو اس میں بلند ہیں،اولے برساتا ہے پھر جسے چاہتا ہے ان سے نقصان پہنچاتا ہے اور جسے چاہتا ہے ان سے بچا لیتا ہے۔ اس کی بجلی کی چمک آنکھوں کو خیرہ کر دیتی ہے” (الروم ، 30:48)
ایک دوسرے مقام پر اللہ رب العزت کا ارشاد پاک ہے کہ :
(اَللّٰہُ الَّذِیْ یُرْسِلُ الرِّیٰحَ فَتُثِیْرُ سَحَابًا فَیَبْسُطُہ فِی السَّمَآءِ کَیْفَ یَشَآءُ وَیَجْعَلُہ کِسَفًا فَتَرَی الْوَدْقَ یَخْرُجُ مِنْ خِلٰلِہ ج فَاِذَآ اَصَابَ بَہ مَنْ یَّشَآءُ مِنْ عِبَادِہ اِذَا ہُمْ یَسْتَبْشِرُوْنَ)
” اللہ وہ ہے جو ہوائیں بھیجتاہے تو وہ بادل کو اٹھالاتی ہیں۔پھر جیسے چاہتا ہے اس بادل کو آسمان میں پھیلادیتا ہے اور اسے ٹکڑیاں بنا دیتا ہے پھر تو دیکھتا ہے کہ بارش کے قطرے اس میں سے نکلتے آتے ہیں پھر جب اللہ اپنے بندوں میں سے جن پر چاہے بارش برسا دیتا ہے تو وہ خوش ہو جاتے ہیں ” (الروم ، 30:48)
ان آیات کریمہ سے معلوم ہوتاہے کہ ہوائیں اللہ کے حکم سے بادلوں کو فضا میں پھیلاتی اورٹکڑیوں میں بانٹتی رہتی ہیں اور جہاں اللہ کا حکم ہوتاہے ان علاقوںمیں بادلوں سے پانی بارش کی شکل میں برسناشروع ہوجاتاہے۔گھومتے ہوئے جب یہ بادل کسی ایسے ٹھنڈے فضائی علاقے میں پہنچتے ہیں جو آبی بخارات کو پھر سے پانی میں منتقل کر سکیں تو وہا ں بھی بادلوں کا سارا پانی یک لخت زمین پر نہیں گر پڑتا ،بلکہ قطرہ قطرہ بن کر گر تا ہے۔حتی ٰ کہ اگر برودت زیادہ ہو تو بھی وہ قطرے ہی اَولے بن کر گرتے ہیں۔ یہ نہیں ہوتا کہ زیادہ سردی کی وجہ سے یک لخت سارا پانی برف بن کر ایک ہی دفعہ کسی جگہ پرگر پڑے۔ اس پانی کی کثیر مقدار کو اس انداز میں نازل کرناکہ وہ خلق خدا ،درختوں اور نباتات ِارضی کے لیے نقصان دہ ہونے کے بجائے فائدہ مند ثابت ہو یہ آخر کار کون سے بے جان طبعی قوانین کا نتیجہ ہے؟پھر یہی بخارات جب شدید سرد منطقہ میں پہنچتے ہیں تو پانی جم جاتاہے، اسی کیفیت کے متعلق قرآن کریم نے ان الفاظ میں بیان فرمایا کہ بلندی میں اولوں کے پہاڑ ہوتے ہیں جن کا فائدہ بہت کم اور نقصان بہت زیادہ ہوتا ہے۔ یعنی وہ ہی چیز جو اللہ کی رحمت تھی۔ اللہ کا عذاب بن کر گرنے لگتی ہے اور فصلوں کو فائدہ پہنچانے کی بجائے انہیں تباہ کردیتی ہے اور یہ اولے بھی گرتے اسی مقام پر ہیں جہاں اللہ کو منظور ہوتاہے۔ اللہ تعالیٰ اپنی مرضی کے مطابق ہواؤں کے رخ کو فوراًپھیر دیتا ہے اورجن لوگوں کو چاہتاہے اَولو ں کے عذاب سے بچا بھی لیتاہے اورجس قوم پر چاہتاہے یہ عذاب اسی پر نازل ہوتاہے۔ آبی بخارات یا منجمد بادلوں کے ٹکراؤ سے بجلی بھی پیدا ہوتی ہے جو گرکر ہر چیز کوجلا دیتی ہے اور اسے تباہ کر کے رکھ دیتی ہے اور اس کی روشنی اس قدر تیز اور نگاہوں کو خیرہ کرنے والی ہوتی ہے کہ اگر انسان کچھ دیر اس کی طرف دیکھے تو وہ اس کی بینائی کے نور کو بھی تباہ کر کے رکھ دے۔
یقینااس میں اللہ کی بڑی حکمتیں ہیں۔علاوہ ازیں ہمارا مشاہد ہ ہے کہ ہر سال یکسا ں بارش نہیں ہوتی۔ ایک سال تو بارشوں کی کثرت سے اس خاص مقام پر سیلاب آجا تا ہے اور کوئی سال بالکل خشک گزر جاتا ہے یعنی سرے سے بارش ہوتی ہی نہیں پھر ان طبعی قوانین کے نتائج میں یہ کمی بیشی اور تبدیلی کیوں واقع ہوتی ہے؟آخر ان باتوں سے یہ نتیجہ کیوں نہیں نکالا جا سکتا کہ کوئی ایسی زبردست اور بالاترہستی بھی موجود ہے جو ان بے جان قوانین کے نتائج میں تبدیلی کا پورا پورا اختیار رکھتی ہے۔(2)
علم موسمیات کے ماہرین نے معلوم کیاہے کہ بادلوںکے وہ ٹکڑے جو اَولے برساتے ہیں وہ 4.7سے 5.7میل (7.6سے9کلومیٹر) تک بلند ہوتے ہیں۔(3)بادلوں میں گرج اورچمک کا پیداہونا حقیقت میں بجلی کا پیدا ہونا ہے۔ بادل جب ایک دوسرے سے ٹکراتے ہیں تو ان میں رگڑ پیدا ہوتی ہے اوررگڑ سے گرج آور بجلی بنتی ہے۔ بادلوں میں اگر نمی یا پانی کے قطرات نہ ہوتے تو کبھی بجلی پید انہ ہوتی۔ اگر پانی یانمی کے بغیر ایسا ہوتا تو کسی بھی دھات کوچھونے پر بجلی کا کرنٹ پید ا ہو جاتا۔ بادلوں میں پانی کے قطرات گھومتے ہوئے جب ایک دوسرے سے ٹکراتے ہیں تو وہ برقیائے جانے لگتے ہیں، جس سے بجلی پیداہونے لگتی ہے۔چارج شدہ ایک بادل اگر چارج شدہ دوسرے بادل سے اچانک ٹکرا جائے توگرج کے ساتھ بجلی پیدا ہوتی ہے۔ جو اچھل کر زمین کی طرف آجاتی ہے۔ جب یہ زمین پر گرتی ہے تو دھماکے کے ساتھ بڑا شعلہ پیداکرتی ہے۔ بادلوں کے ایک دوسرے کے ساتھ ٹکرانے سے چمک پیدا ہوتی ہے۔ چمک پیداہونے سے ہوا گرم ہو کر پھیلتی ہے۔ اس لہر سے پیدا ہونے والی گرج دارآوازہمیں چند سیکنڈ بعد سنائی دیتی ہے۔چونکہ روشنی کی رفتار آواز کی رفتار سے زیادہ تیز ہے ،اس لیے بادلوں کے آپس میں ٹکرانے سے پہلے روشنی کی چمک اوربعد میں گرج کی آواز سنائی دیتی ہے۔ آواز کی رفتار 3سیکنڈ فی کلومیٹر کے حساب سے سفرکرتی ہے۔ (4)
سائنس دانوں کے مطابق دنیا کے مختلف مقامات پر روزانہ ہزاروں دفعہ بجلی گرتی ہے۔ اندازاً ایک سیکنڈ میں100دفعہ آسمانی بجلی کی لہریں زمین پرگرتی ہیں۔ہر سال تقریباً 1000 افراد اس کی زدمیں آکر ہلاک ہوجاتے ہیں جبکہ ہزاروں زخمی ہوجاتے ہیں۔آسمانی بجلی جہاں نقصان دہ ہے وہاں اس کا فائدہ بھی ہے، وہ یہ کہ جب یہ زمین پر گرتی ہے تو اس میں نائیٹروجن پید اکردیتی ہے جو پودوں کی نشوونما کے لیے ایک ضروری شے ہے۔ (5)
اللہ کی نشانیوں میں سے ایک بارش کا رحمت کے ساتھ برسنا ہے تاکہ وہ انسانوں اور جانداروں کے لیے زخمت نہ بنے۔ چناچہ بارش جب برستی ہے تو اس کا پانی ایک خاص مقدار اور رفتار سے زمین پر گرتاہے۔ بارش کا پانی تقریباً 1200میٹر کی بلندی سے گرایا جاتاہے۔چنانچہ کسی اور چیز کو کہ جس کا پانی کے قطرے جتنا وزن اور سائز ہو مسلسل تیزی کے ساتھ اسی بلندی سے زمین پر گرائیں تو وہ چیز زمین پر 558کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے گرے گی مگر رب کائنات کی مہربانی ہے کہ بارش کے قطروں کی اوسط رفتار 8-10کلومیٹر فی گھنٹہ ہوتی ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ بارش کے قطرے کی ایک خاص شکل ہوتی ہے جو کرہ ٔ ہوائی کی رگڑ کے اثر کو بڑھا دیتی ہے اور اسے زمین پر مزید سست رفتاری سے گرنے میں مدد دیتی ہے۔ اگر بارش کے قطروں کی شکل اورہوتی یا کرہ ٔہوائی میں رگڑ کی خا صیت نہ ہوتی تو بارش کے دوران زمین پر کس قدر تباہی پھیلتی اس کا اندازہ کرنے کے لیے نیچے دیے گئے اعدادوشمار کافی ہیں۔
بارش برسانے والے بادلوں کے لیے کم از کم بلندی 1200میٹر ہوتی ہے۔ ایک قطرے سے پیدا ہونے والا اثر ،جو کہ اس بلندی سے گرے ایک ایسی شے کے برابر ہو گا کہ جس کا وزن ایک کلوگرام اور جسے 15سینٹی میٹر کی بلندی سے گرایا گیا ہو۔ بارش برسانے والے کچھ ایسے بادل بھی ہیں جو 10,000میٹر کی بلندی سے پانی برساتے ہیں۔ یہاں ایک قطرے سے پیدا ہونے والا اثر ، جو کہ اس بلندی سے گرے ایک ایسی شے کے برابر ہو گا کہ جس کا وزن ایک کلوگرام اور جسے 110سینٹی میٹر کی بلندی سے گرایا گیا ہو۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ اس صورت میں زمین پر جانداروں کا زندہ رہنا ناممکن ہو جاتا نیز کوئی عمارت بھی اپنی جگہ پر قائم نہ رہ سکتی تھی۔(6)
اس کے علاوہ قرآن ہماری توجہ بارش کے ”میٹھے ”پانی کی جانب بھی دلاتا ہے:
(اَفَرَ أَ یْتُمُ الْمَآءَ الَّذِیْ تَشْرَبُوْنَ ۔ءَ   اَنْتُمْ اَنْزَلْتُمُوْہُ مِنَ الْمُزْنِ اَمْ نَحْنُ الْمُنْزِلُوْنَ ۔ لَوْنَشَآءُ جَعَلْنٰہُ اُجَاجًا فَلَوْ لَا تَشْکُرُوْنَ)
” کبھی تم نے آنکھیں کھول کر دیکھا یہ پانی جو تم پیتے ہو اسے تم نے بادل سے برسایا ہے یا اس کے برسانے والے ہم ہیں ؟ہم چاہیں تو اسے سخت کھاری بنا کر رکھ دیں پھر کیوں تم شکر گزار نہیں ہوتے ؟۔(واقعہ ۔ 68-70)
(وَاَسْقَیْنٰکُمْ مَّآءَ فُرَاتًا)
”….اورتمہیں میٹھا پانی پلایا ….”(المرسلات : 77:27)
(ہُوَالَّذِی اَنْزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءَ لَّکُمْ مِّنْہُ شَجَر فِیْہِ تُسِیْمُوْنَ)
”وہی ہے جس نے آسمان سے تمہارے لیے پانی برسایا جس سے تم خود بھی سیراب ہوتے ہو اور تمہارے جانوروں کے لیے بھی چارہ پیدا ہوتا ہے ”۔(النحل 16:10 )
جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ بارش کے پانی کا منبع بخارات ہیں اور 97%بخارات ”نمکین ” سمندروں سے اٹھتے ہیں۔ مگر بارش کا پانی میٹھا ہو تا ہے۔ یہ میٹھا کیوں ہوتاہے اس کی وجہ اللہ کا بنایا ہو ا ایک اورطبعی قانون ہے۔ اس قانون کے مطابق جب سمندروں کی سطح پر سورج کی حرارت سے آبی بلبلے بنتے ہیں تو ان میں سمندری نمک کے مہین ذرات بھی شامل ہوجاتے ہیں جو آبی بخارات کے ساتھ فضامیں شامل ہوتے رہتے ہیں۔اگرچہ کرۂ ہوائی اسطرح ایک دن میں تقریباً 2.7کروڑ ٹن نمک جمع کرلیتا ہے مگر اس کے مقابلے میں تبخیر شدہ پانی اور زمین پر برسنے والے پانی کی بڑی کثیر مقدار میں یہ نمک بس اس قدر ہوتا ہے جو اس کو میٹھا بنانے کے لیے کافی ہوتا ہے اور آبی بخارات کی نمکینی قدرت کے طے شدہ تناسب سے بڑھنے نہیں پاتی ۔
زمین کو پانی مہیا کرنے کے علاوہ جو جانداروں کی ایک ایسی ضرورت ہے جس کے بغیر زندگی کاتصور ہی نہیں کیا جا سکتا ،بارش کا ایک قطرہ ایک اور اثر زرخیزی پیداکرتاہے۔ بارش کے وہ قطرے جو سمندروں سے بخارات کی شکل میں اٹھتے اور بادلوں تک پہنچتے ہیں ان میں بہت سے ایسے مواد ہوتے ہیں جو مردہ زمین کو ”زندگی بخشتے ہیں ”۔ان ”حیات بخش ”قطروں کو ”سطحی تناؤ کے قطرے ” کہا جاتاہے۔
یہ سطحی تناؤ کے قطرے سطح سمندر کے سب سے اوپر والے حصے میں بنتے ہیں جسے حیاتیات دانوں نے خوردتہہ (Micro Layer) کا نام دیاہے۔یہ تہہ جو ایک ملی میٹر کے دسویں حصے سے بھی زیادہ پتلی ہوتی ہے اس میں بہت سی نامیاتی باقیات رہ جاتی ہیں جو خوردبینی آبی پودوں او ر آبی جانوروں سے پیدا کردہ آلودگی پر مشتمل ہوتی ہیں۔ان باقیا ت میں سے کچھ اپنے اندر کچھ ایسے عناصر کو منتخب کرنے اورجمع کرنے کاعمل جاری رکھتی ہیں جو سمندری پانی میں بہت نایا ب ہوتے ہیں مثلاًفاسفورس ،میگنیشیم ،پوٹاشیم اور کچھ بہت بھاری دھاتیں مثلا ً تانبا ،زنک ،کوبالٹ (Cobalt) اور سیسہ۔کھادوں سے لدے ہوئے ان پانی کے قطروں کو ہوائیں آسمان کی طرف اٹھا کر لے جاتی ہیں اور پھر کچھ ہی دیر بعد یہ بارش کے قطروں کے اندر شامل ہو کر زمین پر گرنے لگتی ہیں۔ زمین پر بیج اور پودے ان بارش کے قطروں میں بہت سے دھاتی نمکیات اور ایسے عناصر حاصل کرتے ہیں جو ان کی نشوونما کے لیے ضروری ہوتے ہیں۔اس بات کو ایک سورة میں یوں بیان فرمایا گیا ہے:
(وَنَزَّلْنَا مِنَ السَّمَآءِ مَآءَ مُّبٰرَکًا فَاَنْبَتْنَا بِہ جَنّٰتٍ وَّحَبَّ الْحَصِیْدِ)
”اور آسمان سے ہم نے برکت والا پانی نازل کیا پھر اس سے باغ اورفصل کے غلے پید ا کر دیے ” ۔(ق:50:09)
وہ نمکیا ت جو بارش میں زمین پر گرتے ہیں مختلف روایتی کھادوں (کیلشیم ،میگنیشیم،پوٹاشیم وغیرہ )کی چھوٹی مثالیں ہیں جو زمین کی زرخیزی میں اضافے کے لیے استعمال کی جاتی ہیں۔ دوسری طرف ان ایر وسولز (Aerosols)یعنی آبی بخارات میں بھاری دھاتیں پائی جاتی ہیں۔ پھر کچھ ایسے عناصر بھی پائے جاتے ہیں جو پودوں کی نشوونما اور پیداوار کے لیے زرخیزی میں اضافہ کرتے ہیں۔مختصریہ کہ بارش ایک اہم کھاد کا کا م کرتی ہے۔ ایک بنجر زمین میں پودوں کے لیے ضروری تمام چیزیں کروڑوں برسوں سے بارش کے ذریعے گرائی گئی کھادکی شکل میں فراہم کی جارہی ہیں۔ جنگلات بھی ان ہی سمندروں سے اٹھنے والے ایروسولز سے پھلتے پھولتے اور خوراک حاصل کرتے ہیں۔اس طرح ہر سال 150ملین ٹن کھادپوری زمین پر گرتی ہے۔ اگر اس قسم کی قدرتی زرخیری موجود نہ ہوتی تو زمین پر سبزہ وگل بہت کم نظر آتے اور ماحولیا تی توازن بگڑ گیا ہوتا۔(7)
یہ حقیقت ہے کہ جدید سائنس نے ہمیں اللہ تعالیٰ کی قدرت کی نشانیوں کو جس طرح سمجھنے میں آج ہمیں مدد فراہم کی ہے ،وہ بے مثال ہے ۔گو کہ ایک مسلمان کے نزدیک کسی چیز کے صحیح اور غلط ہونے اورپرکھنے کے لیے اصل کسوٹی ”قرآن مجید ”ہی ہے ،سائنس نہیں۔تاہم کئی سائنسی ثابت شدہ دریافتوں نے ہمارے قرآن مجید پر ایمان کو دوچندکیا ہے اور اس کی سچائی غیر مسلموں کے سامنے بھی اظہر من الشمس ہو گئی ہے۔اللہ تعالیٰ ہمیں قرآن مجید کو سمجھنے اور اس کے مطابق عمل کرنے کی توفیق عطافرمائے۔ آمین۔
بادلوں کی اقسام
بادلوں کی درج ذیل چار اقسام ہیں،جن کی تفصیل درج ذیل ہے:
1)۔ تودہ ابر(Cumulus): یہ لاطینی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ”ڈھیر”کے ہیں،یہ پھولے پھولے سفید رنگ کے بادل ہیں جو آسمان پر موٹی موٹی تہوں کے ڈھیروں میں نظر آتے ہیں،ان کی شکل گنبد نما ہوتی ہے جو بالائی حصے سے گول اورنچلے حصے سے چپٹے ہوتے ہیں۔آسمان پر جب یہ بادل چھائے ہوئے ہوں تو آسمان یوں دکھائی دیتاہے جیسے اس پر روئی کے پہاڑوں کانہایت ہی خوبصورت سلسلہ موجودہو۔ اس طرح کے بادل عموماً شدید موسم گرما میں بعد دوپہر دکھائی دیتے ہیں اورعام طورپر 4000سے 5000فٹ کی بلندی پر پائے جاتے ہیں،جب یہ بادل پانی سے بھر جاتے ہیں تو گرجنے اوربرسنے والے بن جاتے ہیں۔ان میں تقریباً 300,000ٹن تک پانی جمع ہوتا ہے۔
2) طرۂ ابر(Cirrus): یہ بھی لاطینی لفظ ہے۔ اس کے معنی ”گھنگھریالے ”ہے۔ یہ بادل بہت بلندی پر بنتے ہیں۔ان کی شکل سفید گھنگھریالے پروں جیسی ہوتی ہے۔ نازک نازک سے یہ بادل خشک موسم میں دکھائی دیتے ہیں ، عام طور پر یہ بادل ہماری زمین سے 6.4سے 8کلومیڑکے فاصلے پر ہوتے ہیں۔آسمان پر پائے جانے والے یہ بلند ترین بادل ہیں ،جو ہواؤں کے رخ پر اڑتے ہیں اورعام طورپر طوفانوں کی نشاندہی کرتے ہیں۔
3) طبق ابر(Stratus): یہ بھی لاطینی لفظ ہے جس کے معنی ”پھیلنے والے” ہیں۔آسمان پر یہ بادل چاروں طرف پھیلے ہوئے اوردھندنما نظر آتے ہیں۔یہ زیادہ بلندی پر نہیں ہوتے۔ عام طورپر 2000سے7000فٹ کی بلندی پر پائے جاتے ہیں۔ بظاہر یہ بادل خاموش دکھائی دیتے ہیں تاہم یہ خراب موسم کی علامت سمجھے جاتے ہیں۔
4)ابرباراں (Nimbus): یہ بھی لاطینی زبان کالفظ ہے ،اس کا مطلب بارش کا طوفان ہے۔ انہیں بارشی بادل بھی کہا جاتا ہے۔ ان بادلوں کارنگ گہر ا سلیٹی ہوتاہے ،ان کی کوئی واضح شکل وصورت نہیں ہوتی۔ ماہرین موسمیات انہی بادلوں کامشاہدہ کرکے موسم کے بارے میں پیش گوئی کرتے ہیں۔(8)
چنانچہ اس مسٔلہ میں بھی جدید سائنس اور قرآن میں زبرست مماثلت پائی جاتی ہے گو کہ سائنس دانوں کی اکثریت نے ابھی تک خداکے وجو د کا اقرار نہیں کیااور وہ تما م چیزوں کی وضاحت اپنے بنائے ہوئے قوانین اور اصولوں کے تحت ہی کر رہے ہیں مگر امید ہے کہ ایک دن آئے گا کہ وہ اپنی ان تحقیقات کے نتیجے میں بالآخر اللہ تعالیٰ کی عظیم ہستی کو نہ صرف تسلیم کر لیں گے (جیسا کہ بعض سائنس دان تسلیم کر چکے ہیں ) بلکہ ان چیزوں کی وضاحت کے لیے سائنسی اصولوں اورقوانین کے ساتھ ساتھ ربِ کائنات پر بھی ایمان لے آئیں گے۔ان شاء اللہ
………………………………………………………………………
حواشی
(1)۔ موسمیات،اُردو سائنس بورڈ،لاہور سے اقتباس
(2)۔تیسیر القرآن ،جلد سوم ،النور، حاشیہ 70,71
(3)۔ (Elements of Meteorology, Miller & Thompson, page :141)
http://www.islam-guide.com
(4)۔موسمیات ۔اردو سائنس بورڈ لاہور۔صفحہ 47-48)
http://www.islam-guide.com
(5)۔http://www.kidslightning.info/zaphome.htm
http://www.wildwildweather.com/clouds.htm
(6)۔ ا للہ کی نشانیا ں ،عقل والوں کے لیے۔صفحہ235-236-
(7)۔للہ کی نشانیا ں ،عقل والوں کے لیے۔صفحہ238-240
اسلام کی سچائی اور سائنس کے اعترافات۔ صفحہ 81-82
(8)۔ موسمیات ۔اردو سائنس بورڈ لاہور۔صفحہ 57-58)
http://www.usatoday.com/weather/wcloud0.htm

تم سب مل کر ایک مکھی بھی پیدا نہیں کرسکتے۔ قرآن کا چیلنج

 اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:
((یٰاَ یُّھَا النَّاسُ ضُرِبَ مَثَلُ فَاسْتَمِعُوْ ا لَہ ط اِ نَّ الَّذِ یْنَ تَدْعُوْ نَ مِنْ دُوْ نِ اللّٰہِ لَنْ یَّخْلُقُوْ ا ذُ بَا بًا وَّلَوِ اجْتَمَعُوْ ا لَہ ط  وَ اِنْ یَّسْلُبْھُمُ الذُّ بَا بُ شَیْئًا لَّا یَسْتَنْقِذُ وْہُ مِنْہُ ط ضَعُفَ الطَّا لِبُ وَ الْمَطْلُوْ بُ ہ مَا قَدَ رُ و ا للّٰہَ حَقَّ قَدْ رِ ہ ط اِ نَّ اللّٰہَ لَقَوِ یُّ عَزِیْزُ )
”لوگو! ایک مثال بیان کی جا رہی ہے، ذرا کان لگا کر سن لو! اللہ کے سوا جن جن کو تم پکارتے رہے ہو وہ ایک مکھی بھی پیدا نہیں کر سکتے گو سارے کے سارے ہی جمع ہو جائیں، بلکہ اگر مکھی ان سے کوئی چیز لے بھاگے تو یہ تو اسے بھی اس سے چھین نہیں سکتے، بڑا بزدل ہے طلب کرنے والا اور بڑا بزدل ہے وہ جس سے طلب کیا جا رہا ہے انہوں نے اللہ کے مرتبہ کے مطابق اس کی قدر جانی ہی نہیں۔ اللہ تعالیٰ بڑا ہی زور و قوت والا اور غالب و زبردست ہے” ۔ (الحج: 73-74)
سائنسدان اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ ابھی تک یہ ناممکن ہے کہ ہم مکھی یا اس جیسی کوئی چیز بنا سکیں۔قرآن کا یہ چیلنج عام ہے تمام بنی نوع انسان اس میں شریک ہیں اوریہ چیلنج بڑا واضح ہے کہ دنیا کے تمام انسان اپنی جدید ترین ٹیکنالوجی کی مدد سے بھی ایک مکھی نہیں بنا سکتے ،بلکہ مکھی اگر ان سے کوئی خوراک چھین لے جائے تو وہ ا س سے واپس نہیں لے سکتے ۔مکھی کو بنانا اسی طرح ناممکن ہے جس طرح گدھا یا گھوڑا بنانا ،اس لیے کہ مکھی کی زندگی میں کئی حیرت انگیز پہلو موجود ہیں ۔مکھی کی آنکھیں چھ ضلعی عدسوں سے بنتی ہیں ۔ایک عام عدسے کی نسبت ان سے زیادہ وسیع وعریض علاقے کو دیکھا جاسکتا ہے ۔کچھ مکھیوں میں ان عدسوں کی تعداد بعض اوقات 5000 بھی ہوتی ہے ۔ اس کی آنکھ کی گولائی میں بنی ہوئی ساخت اسے اپنے پیچھے بھی دیکھ لینے میں مدد دیتی ہے ۔یہ آنکھ یوں اسے اپنے دشمنوں پر بڑی فوقیت دے دیتی ہے ۔
امریکہ میں سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اب یہ معلوم ہو گیا ہے کہ مکھیوں کو مارنا اتنا مشکل کیوں ہوتا ہے۔ تجربات سے یہ بھی واضح ہوا ہے کہ مکھیاں یہ بات بھی جان جاتی ہیں کہ حملے کی صورت میں انہیں کس قدر جسمانی حرکت کی ضرورت ہوگی۔ کیلیفورنیا انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے سائنسدانوں نے اپنے تجربات کے دوران مکھیوں کی متعدد فلمیں بنائیں جس سے یہ پتہ چلا کہ مکھیاں جس مقام پر بھی بیٹھتی ہیں وہاں بیٹھنے سے پہلے ہی کسی حملے کی صورت میں فرار کا راستہ تلاش کر لیتی ہیں۔ماضی میں مکھیوں کی بچنے کی صلاحیت کے بارے میں مختلف نظریات پیش کیئے جاتے رہے ہیں۔ تاہم اب سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ مکھیاں اپنے تیز دماغ اور قبل از وقت منصوبہ بندی کی صلاحیت کی وجہ سے بچ جاتی ہیں۔اس بات کا پتہ انتہائی تیز رفتار اوربہترین ریزولیوشن والی ویڈیوز سے چلا جس نے یہ ثابت کیا کہ کس طرح مکھیاں آنے والے خطرے سے خبردار ہو کر فرار کی راہ متعین کر لیتی ہیں۔ سانئسدانوں کی تحقیق کے مطابق خطرے کے احساس کو محسوس کرتے ہوئے مکھیاں ایک جگہ سے دوسری جگہ جب چھلانگ لگاتی ہیں تو ان کو یہ فیصلہ کرنے میں 200ملی سیکنڈکا وقت درکار ہوتاہے سائنسدانوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ مکھیاں چاہے خوراک حاصل کر رہی ہوں یا پھر ویسے ہی چل رہی ہوں ان کا ردعمل ہر حالت میں قریباً ایک جتنا تیز ہوتا ہے۔مکھیوں میں افزائش نسل کا عمل بھی انتہائی تیز رفتار ہو تا ہے ۔ اب تک کی جانے والی تحقیق کے مطابق اگر مکھیوں کا ایک جوڑا عمل تولید کا عمل اپریل میں شروع کرے اور انڈوں سے نکلنے والے تمام لاروے زند ہ رہیں اور حالات بھی موزوں رہیں تونسل درنسل چلتے ہوئے یہ سلسلہ اس قدر پھیل جائے گاکہ اگست تک 191,010,000,000,000,000,000 مکھیاں جنم لے چکی ہوں گیں۔
قرآ ن مجید اس آیت کریمہ میں انسان کے کمزور ہونے کی طرف اشارہ ،ان الفا ظ سے کرتا ہے کہ اگر مکھی ان سے کوئی چیز چھین کرلے جائے تو یہ اسے واپس نہیں لے سکتے ۔مکھیاں اپنے ساتھ کئی خطرناک بیماریوں مثلاً میعادی بخار ، پیچس اور آشوب چشم وغیرہ کے جراثیم لیے اڑتی رہتی ہیں۔یہ کمزور مخلو ق انسان کوکئی بیماریوں میں مبتلا کرسکتی ہے۔جبکہ انسان بھی اتنا کمزور ہے کہ مکھی جیسی کمزور اور ناتواں مخلوق اگر ان سے کوئی چیز مثلاً کھانے کا کچھ حصہ لے کر اُڑ جائے تو وہ اس سے واپس لینے میں عاجز ہے ۔جدید سائنسی تحقیق سے قبل ہم قرآن کے اس دعوٰی کو اس طرح سے سمجھتے تھے کہ آخر مکھی جیسی ننھی سی مخلوق کھانے کی جس قد رمقدار لے کر جاسکتی ہے اس کو ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ ہی نہیں سکتے اور جب ہمیں معلوم ہی نہ ہو کہ وہ خوراک کا کتنا حصہ لے کر گئی ہے اور اسے کہاں رکھا ہے ،تو اس سے واپس لینے کا سوال ہی پید ا نہیں ہوتا ۔مگر اللہ جو کائنا ت کا رب ہے ،اسے اس ٹیکنالوجی کا بھی پتہ ہے جسے انسان نے قیامت تک حاصل کرتے رہنا ہے ۔اس لیے جوں جو ں ٹیکنالوجی ترقی کرتی جارہی ہے ،ویسے ہی ہمارے لیے قرآن مجید کی ان مخصوص آیات کے لطیف پہلوؤں کو سمجھنا نہایت آسان اور واضح ہو تا جارہا ہے۔
چناچہ جدید سائنس کی تحقیق کے مطابق جب مکھی کہیں سے خوراک کا کچھ حصہ حاصل کرتی ہے تو اپنے پیٹ میں سے کچھ مادوں کو نکال کر اس میں ملا دیتی ہے جس سے خوراک کی نوعیت بدل جاتی ہے ۔پھر کسی کے لیے یہ ممکن نہیں رہتا کہ وہ اس خوراک کی تبدیل شدہ حالت کو اس کی اصل شکل میں واپس لائے۔مکھی کی اہم خصوصیات میں سے ایک اس کا کھانا ہضم کرنے کا طریقہ ہے ۔یہ اس طرح کھانا ہضم نہیں کرتی جس طرح کے زمین پر دوسرے جاندار کرتے ہیں،مکھیا ں خوراک منہ میں ہضم کرنے کی بجائے اپنے جسم سے باہر کرتی ہیں۔مکھیاں اپنی سونڈ کے ذریعے ایک خاص قسم کا محلول خوراک پر ڈالتی ہیں جس سے وہ مناسب حد تک گاڑھاہو جاتا ہے اور مکھیوں کے لیے اسے چوسنا آسان ہو جاتاہے۔چناچہ اس کے بعد مکھیا ں اپنے گلے میں لگے چوسنے والے پمپ سے خوراک کو چوس لیتی ہیں ۔
آئیے اب اس بات کو ذرا تفصیل سے دیکھتے ہیں کہ مکھی خوراک کسی طرح کھاتی یا چوستی ہے ۔جب مکھی کو کچھ کھانا ہوتا ہے تو وہ اپنے منہ کولمبا کرتی ہے یعنی اس کے منہ سے ایک ٹیوب نما نالی نکلتی ہے جو خوراک تک پہنچتی ہے ،اس ٹیوب کاآخری حصہ ویکم کلینر کی طرح چوڑ اہوتا ہے ۔جب مکھی اپنی ٹیوب کو خوراک تک پہنچا دیتی ہے تو پھر اس سے کچھ خامرے یا کیمیائی محلول نکلتاہے جو کھا نے پر پھیل جاتاہے اور کھانے کے اجزاء کو توڑ کر محلول کی شکل میں بدل دیتا ہے۔ اس پیچیدہ کیمیائی عمل کے بعد مکھی کے لیے سہل ہوجاتاہے کہ وہ اس Ingested Food کو چوس سکے ۔ چناچہ اس تحقیق سے پتہ چلتاہے کہ مکھی کو اللہ تعالیٰ نے یہ صلاحیت عطاکی ہوئی ہے کہ وہ کھانے سے پہلے خوراک کے اجزاء کو مخصوص کیمیائی مادوں کے ذریعے توڑ سکے اوریہ فعل وہ جسم سے باہر کرتی ہے ۔۔
آئیے اب ہم دوبارہ قرآن مجید کی اس آیت کی طرف لوٹتے ہیں اور اس کے الفاظ پر غورکرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس میں انسان کی بے بسی کو ظاہر کیا گیا ہے کہ اگر مکھی ان سے کوئی چیز لے جائے تو وہ اس سے واپس نہیں لے سکتے ۔ا س کا مطلب یہ نہیں ہوسکتا کہ انسان کے پاس کوئی ایسے اوزار نہیں ہیں کہ وہ اس کے منہ سے یہ خوراک نکا ل سکے بلکہ اس سائنسی تحقیق کے بعد اس کی تفسیر یوں ہو سکتی ہے کہ مکھی چونکہ خوراک کو کھانے سے پہلے،کیمیائی مادوں کے ذریعے اس کی طبعی حالت کوبدل چکی ہوتی ہے لہذا اگر انسان کسی طرح وہ خوراک واپس لے بھی لے تو وہ خوراک کی اصل شکل نہیں ہوگی اورسائنسدانوں کے مطابق خوراک کی اس تبدیل شدہ حالت کو اس کی اصل حالت میں واپس لانا بھی ناممکن ہے ۔خلاصہ کلام یہ ہے کہ مکھی جو لے جاتی ہے اس کو اس کی اصل حالت میں واپس لے آنا ناممکن ہے اور قرآن کا یہ دعوٰی ہے کہ انسان اس میں کبھی بھی کامیاب نہیں ہو سکتا ۔
چناچہ قرآن مجید اس آیت کریمہ میں انسان کو 2چیلنج کرتا ہے ۔اول یہ کہ انسان کبھی بھی مکھی نہیں بنا سکتا ،دوم یہ کہ اگر مکھی کوئی چیز ان سے چھین لے جائے تو وہ اسے واپس نہیں لے سکتے ۔جدید سائنسی تحقیقی نے اس بات کو ثابت کردیا ہے کہ قرآن مجید کے یہ دونوں دعوے بالکل برحق ہیں اور یہ قرآن کی سچائی کی ایک روشن دلیل ہے۔اس آیت کریمہ سے ایک اور نتیجہ بھی نکلتا ہے کہ جس طرح مکھی ایک کمزور مخلوق ہے ،انسان بھی اسی طرح ناتواں و بے کس ہے ۔

……………………………………………………………………
حواشی
اللہ کی نشانیاں عقل والوں کے لیے۔ از ہارون یحییٰ


Are We At War With Pakistan?

In the days before the Empire, generals – particularly Chairmen of the Joint Chiefs – kept their mouths shut. The Founders’ justified fears of military intrusion into the political realm were still present in the American consciousness, and the idea that an American general might try to influence policy directly, by making public statements on controversial political topics, was considered outside the norm. Today, however, no one is shocked by Admiral Mullen’s testimony before the Senate Armed Services Committee that we are, for all intents and purposes, already at war with Pakistan:

“Extremist organizations serving as proxies of the government of Pakistan are attacking Afghan troops and civilians as well as U.S. soldiers. For example, we believe the Haqqani Network – which has long enjoyed the support and protection of the Pakistani government and is, in many ways, a strategic arm of Pakistan’s Inter-Services Intelligence Agency – is responsible for the September 13th attacks against the U.S. Embassy in Kabul.
“There is ample evidence confirming that the Haqqanis were behind the June 28th attack against the Inter-Continental Hotel in Kabul and the September 10th truck bomb attack that killed five Afghans and injured another 96 individuals, 77 of whom were U.S. soldiers. History teaches us that it is difficult to defeat an insurgency when fighters enjoy a sanctuary outside national boundaries, and we are seeing this again today. The Quetta Shura and the Haqqani Network are hampering efforts to improve security in Afghanistan, spoiling possibilities for broader reconciliation, and frustrating U.S.-Pakistan relations. The actions by the Pakistani government to support them – actively and passively – represent a growing problem that is undermining U.S. interests and may violate international norms, potentially warranting sanction. In supporting these groups, the government of Pakistan, particularly the Pakistani Army, continues to jeopardize Pakistan’s opportunity to be a respected and prosperous nation with genuine regional and international influence.”
If the evidence is so “ample,” why didn’t Mullen reveal any of it during the course of his testimony? It’s “classified,” which means we ordinary mortals aren’t entitled to see it: we just have to take their word for it. In this context, however, their word isn’t worth a hill of beans.
The earlier part of Mullen’s testimony was a paean to the “success” of US/NATO efforts in Afghanistan: except for a few minor glitches, he strongly implied, everything’s coming up roses. How, then, to explain the brazen attacks on the Inter-Continental Hotel in Kabul, and the Taliban strike at the US embassy, which penetrated to the very core of the American presence in the country – the Afghan equivalent of Iraq’s “Green Zone”? It must be the ISI, Pakistan’s intelligence agency – yeah, that’s the ticket!
Facing questions about his competence, and that of his generals, Mullen struck back with a conspiracy theory that explains away – or, at least, explains – the severity of these attacks, which fatally undermine his Pollyanna-ish narrative. The Obama administration has been laying the groundwork for this particular conspiracy theory for quite some time, peppering the Pakistanis with accusations of complicity in Taliban attacks on US forces – albeit without producing any public evidence. You’ll recall that the President himself, during the 2008 campaign, explicitly threatened to strike at Pakistan – and even John McCain was horrified.
The Justice Department is playing a key role in the anti-Pakistan offensive, utilizing the infamous David Headley – a DEA snitch and “former” terrorist operative – to fill in the details of Pakistan’s alleged perfidy. Headley claims he was trained by the ISI at one of several terrorist training camps run by a Kashmiri separatist group, the Lashkar-e-Taiba (LeT), and that Pakistan was the real source of the terror in Mumbai. Go here for the suspiciously murky details of his convoluted story, but suffice to say that I’d sooner trust the word of a used car dealer who’s down to his last dime. While in the pay of the DEA, Headley traveled around the world committing and planning terrorist acts – but you’re a “conspiracy theorist” if you think this throws a shadow of suspicion on his character, his motives, or his “testimony.”
With military ties tightening between the US and India – Pakistan’s ancient enemy – one thing is clear: Washington is tilting toward New Delhi. This shift began in 2006, when India and the US agreed to cooperate on the development of “civil” nuclear power. However, as the Council on Foreign Relations reports, under the terms of the agreement “India would be eligible to buy U.S. dual-use nuclear technology, including materials and equipment that could be used to enrich uranium or reprocess plutonium, potentially creating the material for nuclear bombs.”
Pakistan and India have come close to a nuclear exchange on several occasions over the years. With the Hindu ultra-nationalists who wield increasing political clout frothing at the mouth for war, the introduction of such technology poses a deadly danger to the entire region. A nuclear sword of Damocles, forged by the US government, is hanging over the heads of Pakistanis – and we wonder why they hate us.
The Americans are playing a very dangerous game with Pakistan, doing everything in their power to undermine the elected government, while at the same time decrying the threat of “extremism” in that nation. But they can’t have it both ways: if they fear destabilization, then why are they doing their utmost to provoke it? You’d almost have to be a “conspiracy theorist” to make sense out of it.
We are fighting an unwinnable war in the region, one that doesn’t serve our interests, either geopolitical or economic, and we’ve tasked our military with solving an insoluble problem: how to win over a people whose land we’ve occupied. Our military leaders, in response, are forced to invent plausible reasons explaining why they’ve been unable to accomplish the impossible. The blame Pakistan narrative serves that purpose admirably.
The ass-covering isn’t limited to the Afghan war, however, as Mullen’s remarks made all too clear. In warning against letting the alleged problem with Pakistan fester, unacknowledged, Mullen told the Senators:
History teaches us that it is difficult to defeat an insurgency when fighters enjoy a sanctuary outside national boundaries, and we are seeing this again today.”
A revealing comment if ever there was one: the US military is still burning with resentment over their defeat in the Vietnam war, and they blame the politicians for not letting them “win” by bombing the entire region into submission. Mullen is signaling to Congress and the civilian leadership that the military isn’t going to stand by, this time, and let itself be railroaded into taking the blame for another humiliating defeat. Mullen’s message to Congress, and the White House, is clear: let us go after the Pakistanis – or else….
The Obama administration, already intimidated by all things military, is going along with the program. What the anti-Pakistan campaign we’ve been subjected to in recent months amounts to is that the Obama administration is angling for the equivalent of Richard Nixon’s invasion of Cambodia – an act that ended in disaster for all concerned, including the US.
Remember, Pol Pot arose from that slaughterhouse. Who knows what monsters will rise in the wake of our invasion of Pakistan?
It’s just what the politicians need – a fresh overseas war to take our minds off the economic and social crisis here at home. Think of it as another “stimulus package” – war being the only stimulant both parties can agree on.

NATO Acknowledges First Strike Interceptor Missile Plans …

We bring to the attention of our readers excerpts from an article in Aviation Week, which acknowledges NATO’s Plans to implement First Strike preemptive attacks as part of missile defense.

“[Welsh] outlines four “pillars” for missile defense: active defense (intercepting a missile); passive defense (warnings to populations and consequence management); offensive operations (including preventing a launch and/or striking a launch site); and command and control.”
An actual flight test pitting a German Patriot terminal defense battery against a short-range missile target is scheduled for November. During the trial, which will take place in the eastern Mediterranean Sea, a U.S. Aegis cruiser will provide target tracking.

“Many nations have capabilities that would allow us to go in and strike a missile site before it launches an attack, if NATO ever made that decision.”


Guidance Needed For NATO Missile Defense Ops

By Amy Butler

NATO missile defense officials are awaiting approval of a plan to lay out guidance for unified alliance missile defense in advance of a key interim operational capability declaration for the system slated for May.

The North Atlantic Council is reviewing this plan, which includes weapons release authority, contingency response, rules of engagement and weapons control status guidelines, says U.S. Air Force Gen. Mark Welsh, who oversees American air forces in Europe. He says approval is needed by December to conduct proper testing in advance of the May milestone. Welsh is confident that with the North Atlantic Council’s approval, the interim operational capability goal is achievable.

This interim capability encompasses the exchange of data between the disparate command-and-control systems operated by NATO and the U.S.

“We have done data transfer of all types. We have worked email — which sounds minor but isn’t — [but] we have not done active voice testing yet across the system. That is the next set along with the [Internet] chat,” Welsh tells Aviation Week. “We are very close to being able to transfer an air tasking order and an airspace coordination order for missile defense across this system.”

This coordination order provides guidance to forces on which systems and shooters operate in which airspace areas; it also outlines which terminal engagement systems are responsible for acting in the event of an attack.

Welsh acknowledges that the interim milestone planned for May is one of many steps needed to stand up a NATO missile defense in Europe. “We are at step zero right now trying to build this; the first step is connectivity…We still have to prove that,” Welsh says. “The next step is once we do have that, we will have a very small capability to actually intercept and destroy an incoming missile.”

Declaration of an initial operational capability was originally planned for 2014-15, with full operational capability to follow in 2018. The general acknowledges these dates are up for debate now at NATO. But “we are not far off” that plan, he says.

An actual flight test pitting a German Patriot terminal defense battery against a short-range missile target is scheduled for November. During the trial, which will take place in the eastern Mediterranean Sea, a U.S. Aegis cruiser will provide target tracking.

[Welsh] outlines four “pillars” for missile defense: active defense (intercepting a missile); passive defense (warnings to populations and consequence management); offensive operations (including preventing a launch and/or striking a launch site); and command and control.

“There are lots of things they can do if they would look at things with a little bit broader scope than they have,” Welsh says. “Many of the nations can contribute in [various] ways, for example, in offensive operations. Many nations have capabilities that would allow us to go in and strike a missile site before it launches an attack, if NATO ever made that decision.”


Libya: Mass killing and humanitarian disaster in NATO siege of Sirte …

Refugees from the Libyan coastal city of Sirte report that thousands have died as a result of relentless NATO bombardment and shelling by the the Western-backed “rebels.”
The two-week-old NATO siege of Sirte has left the city without adequate food, drinkable water, medicine and other basic necessities of life, creating hellish condition for its population of 100,000.
While the Benghazi-based National Transitional Council (NTC) has repeatedly issued announcements that the so-called rebels had advanced toward the city center under NATO air cover, they have again and again been forced to retreat under heavy fire from forces loyal to Col. Muammar Gaddafi, as well as what have been described as citizen volunteers.
In their frustration, the anti-Gaddafi militias have pounded the coastal city with artillery and mortar rounds, tank shells and Grad rockets, wreaking horrific destruction.
Thousands of refugees have tried to flee the city, forced to pass through checkpoints set up by the NATO-backed forces, where many have been taken prisoner, accused of being Gaddafi supporters.
The Wall Street Journal reported from one of these checkpoints, describing lines of cars and trucks, packed with civilians and piled with mattresses and other belongings:
“As refugees gathered, the Misrata fighters checked their names against lists of suspected Gaddafi loyalists. Some men were arrested while others were told to wait on the side of the road with their families.
“‘We’re going to punish even those that supported Moammar with words,’ said a bearded fighter to a man who protested his detention. ‘We are the knights that liberated Libya.’ ”
Reports from inside the city indicate a deepening humanitarian catastrophe. The aid group Medecins Sans Frontieres (MSF—Doctors Without Borders) reported Wednesday that it had been in touch with doctors at the main hospital in Sirte, who were facing an increasingly impossible situation.
“If the situation continues for a few more days or weeks, it will be catastrophic. Already the doctors in the hospital can’t do their work properly, and if it persists, the situation will become dramatic,” Dr. Mego Terzian, head of emergency programs for MSF-France, told the Reuters news agency.
“They said the hospital was overwhelmed with wounded,” said Terzian. “There are other kinds of emergencies—pediatric, gynecological and patients with chronic diseases who are not receiving treatment.
“They told us of huge difficulties, a lack of electricity, water and basic medicines to run the emergency room, including anesthetics, antibiotics, analgesics, and blood bags,” he told Reuters.
The MSF representative said that the doctors in Sirte had contacted the group asking for emergency medical supplies, but that the National Transitional Council had “forbidden” MSF volunteers from crossing through its siege lines to aid the population.
Terzian said that the group was investigating whether it could bring in supplies by sea, but that it was not optimistic. NATO warships are maintaining a blockade of Libya’s Mediterranean coast, which is an integral part of the barbaric siege of Sirte.
Another doctor interviewed by the Associated Press said that many of the wounded being brought into the city’s central Ibn Sina Hospital were civilians who appeared to have been hit by rebel shells. The doctor, Eman Mohammed, reported that the hospital had no oxygen in the operating rooms and few staff members to treat patients.
Lack of food, water, electricity and other basic necessities is also taking its toll on the general population, particularly the city’s children. Reporting from a clinic in the town of Harawa, just a few miles outside of Sirte, AFP said that large numbers of families were bringing in young children suffering from severe diarrhea and vomiting.
“Most patients coming to me are children,” Valentina Rybakova, a Ukrainian doctor who has worked in Libya for eight years, told AFP. “I saw 120 patients since morning and 70 percent of them were children. This is a big humanitarian crisis. We are trying to get help from everybody, but the main problem is that these people have no access to clean drinking water.” She said that her clinic, too, was suffering from a shortage of medicines, as well as critical lack of nursing staff.
“The situation in the city is very critical,” Muftah Mohammed, a fish trader who was leaving Sirte, told AFP. “Children are in a particularly bad condition. There is no milk for them. We have all been surviving on just macaroni for several days.”
“There is no food, there is no medicine, and every night, for five or six hours, NATO bombs all sorts of buildings,” Sami Abderraman, 64, told the Spanish daily El Pais as he sought to leave Sirte. “Hundreds of women and children have died like animals.” Abderraman estimated that as many as 3,000 people have been killed in the siege.
Another refugee, who asked not to be named, told El Pais that “The people who remain are going to fight to the death.”
Riab Safran, 28, spoke to the Times of London as his car was being searched at a rebel roadblock outside of Sirte. “It was worse than awful,” he said. “They hit all kinds of buildings—schools, hospitals.” He said that he and his family had slept on the beach to avoid the NATO bombs and rebel shells, which had destroyed his own house on Saturday.
Ali Omar, who fled the city with 27 members of his extended family, recounted the carnage being carried out by the NATO-backed rebels advancing on Sirte from Benghazi in the east.
“The easterners are exterminating everything in front of them,” said the 42-year-old Omar. He and his family, he said, had been pinned down inside their home by heavy gunfire for seven hours on Sunday.
A number of the refugees have told reporters that those remaining in the city feared violence at the hands of the “rebels” after reports of many of those fleeing being detained and of women being abducted from cars leaving the city.
Among the most fearful are refugees who fled Tawergha, a town about 25 miles south of Misrata whose population is composed predominantly of black Libyans. Anti-Gaddafi militias charged that the residents of Tawergha had participated in the siege of Misrata by government troops and have retaliated with wholesale ethnic cleansing. Houses and stores in the town have been burned and daubed with racist graffiti. The new authorities in Misrata have announced plans to bulldoze the entire town so that none of Tawergha’s residents can ever return.
It is estimated that as many as 5,000 refugees from Tawergha sought safety in Sirte and now fear that they will be slaughtered by the militia forces attacking the city from Misrata to the west. Tawergha refugees who have managed to flee the fighting for Tripoli have found no refuge there either. Misrata militias manning checkpoints in the capital have detained them and thrown them into prison camps, accusing them of being “mercenaries.”
The inability of the Western-backed “rebels” to overrun either Sirte or Bani Walid, another city held by Gaddafi forces to the west, has deepened the crisis of the NTC, which has repeatedly failed to carry through announced plans to form an interim government and has seen its authority come under fire from Islamist militia elements.
This crisis has prompted calls from the NTC for NATO to intensify its bombing of Sirte and Bani Walid.
The demands led to a heated denial by NATO that it was not doing enough to support the sieges of the two cities. “NATO has not reduced its activity in Libya,” said the alliance’s spokesman, Col. Roland Lavoie, who pointed out that NATO warplanes had conducted 100 sorties on Tuesday, including 35 “strike sorties.”
Since launching the war on Libya last March, NATO has conducted 24,140 sorties, including 9,010 strike sorties, leaving much of the country in ruins and thousands killed and wounded.
Col. Lavoie added: “The number of strikes depends on the danger against the civilian population, in conformity of our mandate. We do not aim to bring support to NTC forces on the ground, this is why there is no operational coordination with NTC forces.”
This is, of course, a propaganda lie, which hardly conceals the fact that British, French, US and Qatari special operations troops, intelligence operatives and mercenary military contractors have organized, trained and armed the “rebel” armies, whose every advance has been made possible by NATO bombardments.
The so-called mandate claimed by NATO is the resolution pushed through the United Nations Security Council last March authorizing a no-fly zone and “all necessary measures to protect civilians under threat of attack.”
At the time, the US and its NATO allies claimed that intervention was required to halt a supposedly imminent massacre of civilians in the eastern city of Benghazi. Since then, the NATO bombings and the civil war fomented by the Western powers have claimed far more lives than were ever threatened by the Gaddafi regime.
Now this resolution is being invoked to justify NATO and the militias it supports carrying out in Sirte precisely the kind of murderous siege against a civilian population that the US and the European imperialist powers pretended to be preventing.
The killing and destruction that continue more than six months after NATO began its bombardments and more than a month after it proclaimed the fall of the Gaddafi regime serve to underscore the predatory character of this war, which has been carried out based not on “humanitarian” concerns, but rather on imperialist interests.